چیف جسٹس تنہا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

بدھ 27 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پریکٹس اینڈ پروسجیر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئین چیف جسٹس کو اکیلے فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیتا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کیا گیا فیصلہ 21 صفحات پر مشتمل ہے۔

فیصلے میں تحریر ہے کہ آئین چیف جسٹس کو اکیلے ہی فیصلے کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں۔

فیصلے کے مطابق چیف جسٹس کے اختیارات باٹنے کی مخالفت کرنے والوں میں جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔ آرٹیکل 184 تھری کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کی قانونی شق پر 6 ججز نے اختلاف کیا۔ 6-9 کی اکثریت سے قانون بننے کے بعد اپیل کا حق آئینی قرار دے دیا۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اپیل کے حق میں مخالفت کرنے والے ججز میں جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحیحیٰ آفریدی شامل ہیں، اپیل کے اطلاق میں ماضی کی شق کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔

فیصلے کے مطابق اپیل کا حق ماضی سے دینے کی حمایت کرنے والوں میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

’اپیل کا حق ماضی سے دینے سے اختلاف کرنے والوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر اکبر نقوی، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس مظہر علی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس احسن اظہر رضوی شامل ہیں‘۔

قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے، اداروں کے درمیان باہمی احترام کے آئینی تقاضے ہیں، اور باہمی احترام کا ہی تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمان کی رائے کو اپنی رائے سے تبدیل نہ کرے۔

فیصلے کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے شفافیت اور انصاف تک رسائی میں مدد ملے گی، چیف جسٹس اور 2 سینیئر ججز پر مشتمل کمیٹی سے عدلیہ زیادہ بااختیار ہوگی۔

چیف جسٹس نے قرار دیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا گیا، فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دنیا بھر کے قوانین کے ساتھ شرعی تقاضا بھی ہے۔

آئین سپریم کورٹ کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا

فیصلے میں تحریر ہے کہ درخواست گزاروں کی جانب سے اٹھائے گئے دیگر نکات پر غور کرنا اکیڈیمک بحث ہی ہوگی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے سے پہلے ہی عدالت نے حکم امتناع جاری کر دیا۔ آئین سپریم کورٹ کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق چیف جسٹس کا ماسٹر آف روسٹرز ہونا آئین میں کہیں نہیں لکھا، جمہوریت کی بنیاد پر قائم آئین میں ماسٹر کا لفظ تضحیک آمیز ہے۔ ماسٹر کا لفظ غلامی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو آئین اور شرعی اصولوں کے خلاف ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل باقاعدہ قانون بن گیا

فیصلے کے مطابق شرعی اصول بھی ایک سے زیادہ افراد کے درمیان ہونے والے معاملے میں مشاورت لازمی قرار دیتے ہیں، اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے۔ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔

فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر عدالتوں پر لاگو ہوتا ہے مگر خود سپریم کورٹ پر نہیں۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو چھوٹے بینچز کے فیصلوں پر فوقیت دی جاتی ہے، آئینی روایات کو قانون کی طرز پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp