جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہے کہ ماضی میں یہی ہوتا رہا ہے کہ حکومتیں آتی ہیں اور اپنی مصلحتوں میں وقت گزار کر چلی جاتی ہیں۔ ہم چاہتے کہ فاٹا کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔ عام انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے،پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی نہیں، اسے پھر ابھارا جا رہا ہے۔
جمعرات کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کے 2 صوبے اس وت بدامنی کی زد میں ہیں۔ ہم ایسی حکومت چاہتے ہیں کہ جس میں عام آدمی کو پرامن زندگی گزارنے، مفت تعلیم اور صحت کے مواقع حاصل ہوں کیوں کہ حکومتیں آتی ہیں اور اپنی مصلحتوں میں وقت گزار کر چلی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ فاٹا کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا چاہیے، جے یو آئی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعت کے طور پر الیکشن میں حصہ لے گی اور موجودہ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پورے ملک میں انتخابات کے حوالے سے کاغذات کی جانچ پڑتال کے مراحل اب چل رہے ہیں، قوم اس وقت 8 فروری کی طرف متوجہ ہے۔ جمیعت علمائے اسلام ایک بڑی اور اہم سیاسی مذہبی جماعت کے طور انتخابات میں حصہ لے گی کیوں کہ عوام سے ہمارا رابطہ اور تعلق نظریات کی بنیاد پر ہے۔
یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، کلمے کا نعرہ لگا کر لاکھوں مسلمانوں نے وطن کے لیے قربانیاں دیں لیکن بد قسمتی سے 75 سال گزر جانے کے بعد بھی ہم وطن عزیز کو اسلامی مملکت کی شناخت نہیں دے سکے، ہماری جدوجہد کا محور یہ ہے کہ ملک کو ایک مکمل اسلامی شناخت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کے ساتھ انسانی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں، عام آدمی کو اچھی زندگی گزارنے کے موقع حاصل ہونا ہماری جدوجہد میں شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9/11 کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کی ترجیحات اسلامی پاکستان کی نہیں رہیں، آج پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ کے طور پر متعارف ہورہا ہے مگر ہم آئین کے مطابق پاکستان کی ’اسلامی‘ شناخت کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام کے قائل ہیں اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، مسئلہ کشمیر حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں، بھارت کو چاہیے کہ وہ ہٹ دھرمی ترک کر کے کشمیریوں کو استصوابِ رائے کا حق دے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہم افغانستان کے ساتھ بھی باہمی احترام کے قائل ہیں، ہم دونوں ممالک میں داخلی امن و استحکام کے حامی ہیں کیوں کہ افغانستان بھی ہمارا بردار اسلامی ملک ہے۔ افغانستان نے دورہ کی دعوت دی ہے الیکشن سے فرصت کے بعد دورہ کروں گا۔
ہمسایوں سے اچھے تعلقات ہماری پالیسی کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہم بھارت سے کشمیریوں کو ان کے حقوق دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ کچھ گلے شکوے ہوجاتے ہیں مگر ہم بھائیوں جیسے تعلقات چاہتے ہیں کیوں کہ پاکستان اور افغانستان کا استحکام ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کے 2 صوبے بدامنی کی زد میں ہیں، ہم مسلسل الیکشن بھی مانگ رہے ہیں اور آزادانہ ماحول بھی مانگ رہے ہیں۔ تمام امیدواران کو الیکشن کا برابر موقع ملنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، اگر الیکشن کے دوران ہمارا کوئی بھی کارکن شہید ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس پر ہو گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننا غلط بات ہے، سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ فضا کیوں بنائی جا رہی ہے، پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی بلکہ انہیں مزید ابھارنے پر کام ہو رہا ہے، ہمیں چیزوں کو اس پہلو سے بھی دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس ملک میں لائے گئے، معیشت تباہ کردی گئی، جس دن عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اس دن ہماری اسٹاک ایکسچینج منفی 500 چلی گئی، جب اگلے دن دوسرا فیصلہ آیا کہ نااہلی برقرار رہے گی تو انڈیکس 1500 پلس پر چلا گیا، قوم خوف کھا رہی ہے، ان کو پتہ ہے کہ ملکی معیشت کی تباہی ان کا ایجنڈا تھا اور دوبارہ آتے ہیں ملک کی تقسیم کا سبب بنیں گے لہٰذا ان عنصر کے خلاف قوم کو ایک ہونا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ معیشت تباہ کرنے والوں کو دوبارہ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ صوبہ تک محدود ہے، پورے ملک کا فیصلہ پشاور ہائیکورٹ کیسے کر سکتی ہے؟
ہم نے اگلے الیکشن کے لیے اپنے اہداف طے کر لیے ہیں، فاٹا انضمام بظاہر ناکام نظر آرہا ہے، فاٹا کا عام آدمی پریشان ہے کہ ہم صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ ہیں یا فاٹا ہیں۔ اس وقت وہاں عدالتیں ہیں نہ لینڈ ریکارڈ مرتب ہوسکا، کسی طریقے سے بھی بہتری مہیا نہیں ہوسکی، ہمارا ہدف ہوگا کہ ہم فاٹا کے لوگوں کے مسائل حل کرسکیں۔ فاٹا کے عوام کو حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔
اس وقت اسرائیل فلسطینی باشندوں پر جس طرح بمباری کررہا ہے اس کے نتیجے میں 20 ہزار سے زیادہ شہید ہوچکے ہیں ۔ اسرائیل جنگی مجرم ہے، دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔امریکا اور یورپ کس طرح انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں جب اسرائیل بچوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا خیال تھا کہ جب اتنے بڑے پیمانے پر تباہی مچائیں گے تو فلسطین کی دفاعی تحریک مرعوب ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا، فلسطینی مردانہ وار لڑ رہے ہیں اور اسرائیل کی دفاعی قوت و تکبر مجاہدین نے خاک میں ملا دیا ہے۔