نیا الیکشن، پرانے نعرے اور ہتھکنڈے

جمعہ 29 دسمبر 2023
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

الیکشن مہم میں روایتی گہما گہمی اگرچہ کم دکھائی دیتی ہے، شاید اس لیے کہ عوام ملک میں دہائیوں سے جاری کھینچا تانی اور روایتی ہتھکنڈوں سے اکتا گئے ہیں۔ وہی پرانے روایتی نعرے، پوسٹر اور بینرز، مہنگائی کے خاتمے، معیشت کی بہتری، نوکریاں دلوانے کی امیدیں، ملک کی تقدیر بدلنے کے خواب، وغیرہ۔ جب کہ ملک کے حالات بد سے بدتر کی طرف گامزن ہیں۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں ووٹر چاہے نواز لیگ کا ہو یا تحریک انصاف کا یا پیپلز پارٹی کا، وہ جان گیا ہے کہ بہت جلد ملک میں سب ٹھیک نہیں ہونے والا۔ ایک طرف تاریخی مہنگائی نے ان کی زندگی مشکل بنا دی ہے تو دوسری طرف ایک فضا قائم کردی گئی ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل کو احتجاج کرنے سے بھی خوف زدہ ہیں۔

ایک احتجاج کوئٹہ سے اسلام آباد پہنچا اور جس طرح کے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرکے ان سے نمٹا گیا وہ اس بات کا عکاس ہے کہ دنیا ترقی کی جتنی بھی منازل طے کرلے پاکستان میں روایتی طور طریقے کسی صورت بدلنے والے نہیں۔

80 اور 90 کی دہائی میں عوام نے دھاندلی کے نت نئے انداز دیکھے۔ پیسے کا استعمال،  چھانگا مانگا کی سیاست ہو یا جعلی ووٹوں کی بھرمار، عوام نے دیکھا کہ کس طرح سے ان کے ووٹ کو عزت ’بخشی‘ گئی۔ آج کچھ زیادہ فرق نہیں، بس ان ہتھکنڈوں کی ذمہ داری انہوں نے اٹھا لی ہے جو اپنے پسندیدہ امیدوار یا جماعت کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ماضی کی طرح مخالفین پر پرچے درجہ کروانا، تھانوں میں بند کروادینا، یہ سب آج بھی ہو رہا ہے۔

اس معاملے پر پرانا دور نئے دور سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پرانے دور میں بھی  الیکشن مہم کے دوران اپنے مخالفین کے ساتھ زور آزمائی کی جاتی تھی اور گلی محلے میں کمزور مخالف دھڑوں اور ووٹرز پر تشدد کرکے خوف و ہراس پیدا کیا جاتا تھا تاکہ وہ الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشن جانے سے گھبرا جائے۔ ایک ایسی مہم چلائی جاتی تھی کہ عوام یہ تاثر جائے کہ فلاں امیدوار کی جیت پکی ہے، لہذا اسی کو ووٹ ڈال دیں تاکہ کل کو اس سے اپنے علاقے کے کام تو کروا لیں۔

سب سے زیادہ لڑائی جھگڑے خواتین کے پولنگ اسٹیشن پر دیکھنے کو ملتے تھے کیوںکہ اس دور میں شناختی کارڈ پر خواتین کی تصاویر نہیں ہوتی تھیں اور زیادہ تر خواتین برقع اوڑتی تھیں۔ اسی آڑ میں لاتعداد جعلی ووٹ بھگتائے جاتے تھے، اور اکثر ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن جاکر معلوم ہوتا کہ ان کا ووٹ تو ڈالا جاچکا ہے۔

الیکشن والے دن ہر طرف سے لڑائی جھگڑوں اور قتل وغارت کی خبریں اگلے روز اخبارات میں نمایاں ہوتی تھیں۔ آج بھی بزرگ الیکشن سے قبل وہی باتیں کرتے ہیں کہ اس مرتبہ بھی الیکشن پرامن نہیں ہو گا۔

کمپیوٹرائزیشن سے سسٹم کچھ حد تک تبدیل ہوا اور ایک وقت میں الیکشن کمیشن نے بڑی تعداد میں جعلی ووٹوں کا خاتمہ کیا۔ پھر نئے زمانے میں دھاندلی پری پول دھاندلی کی ٹرم ایجاد کی گئی اور چوری چھپے پردے کے پیچھے رہ کر مرضی کے نتائج حاصل کرنے والے کُھل کر میدان میں آگئے۔ اس سے قبل لوگ محض اندازے لگا کر بتا دیتے تھے کہ کس جماعت اور لیڈر پر ہاتھ رکھ دیا گیا ہے۔ اب اندازے لگانے کی ضرورت نہیں سب کچھ کھلم کھلا عوام کے سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔

مگر اس تبدیلی نے شاید سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی سیاسی حکمت عملی پر اثر نہیں کیا، سوائے سوشل میڈیا کے استعمال کے جہاں مخالف امیدوار کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرنے میں بہت آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ آج بھی امیدوار اپنے دھڑوں کے ذریعے گلی محلوں میں لوگوں کے انہی مسائل کے حل کے وعدے کرتے نظر آتے ہیں جو 30 سال پہلے بھی اسی طرح موجود تھے۔ گلی سڑک بنوانے، بچوں کو نوکری دلوانے کے وعدے، صاف پانی مہیا کرنے کی یقین دھانیاں، علاقوں میں صفائی اور گندے پانی کی نکاسی کا انتظام، وغیرہ ہی بیشتر امیدواروں کا ایجنڈا ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے وہ منتخب ہو کر اپنی لیڈرشپ سے تقاضا کرتا ہے کہ اگر اس کی سیٹ حاصل کرنی ہے تو اس کے حلقے میں فنڈز فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اگلے الیکشن میں مطلوبہ سیٹ نکالنے میں کامیاب ہو سکے۔

 ترقیاتی فنڈز آج بھی جاری ہو رہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ قومی سطح پر بہت کم پالیسیاں اپنائی گئیں جس کی بنیاد پر پارٹی کے امیدوار الیکشن جیت سکیں۔ یہ سب کام امیدوار علاقے کے بڑوں پر مشتمل دھڑوں کی رضامندی سے کرواتا ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں مطلوبہ تعداد میں ووٹ یقینی بنا سکے۔ اس علاقے کے نوجوانوں کی رائے بالکل شامل نہیں ہوتی اور نہ انہیں اس پراسیس میں حصہ ڈالنے دیا جاتا ہے۔ اس لیے امیدوار کو بھی علم ہے کہ اسے وہاں کے نوجوانوں یا خواتین سے رائے لینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ووٹ وہاں دھڑوں نے ہی ڈلوانے ہیں-

اسی نظام نے ملک کو جامد کر رکھا ہے۔ ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے جا رہے ہیں۔ کسی جماعت یا ادارے کو با اصول اور جدت پسند سیاستدان یا افسران کی ضرورت نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp