ہر نئے سال سے پہلے مجھے یہی خیال آتا رہا ہے کہ نئے سال کے ساتھ موڈ بھی نیا ہو گا۔ لیکن سال تو بَدَل جاتا ہے، موڈ وہی رہتا ہے اور موڈ ہے بےزاری۔ بےزاری کیوں نہ ہو کہ نیا سال تو آ جاتا ہے مگر بدلتا کچھ بھی نہیں۔ نئے سال کی پہلی صبح کو جب آنکھ کھلتی ہے تو ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ میں اٹلی کے شہر فلووینس میں جاگ رہی ہوں۔ میرے بینک اکاؤنٹ میں مسٹر بجاج کی طرح 500 کروڑ پڑے ہوں۔ میرے گھر میں پانی ، گیس اور بجلی سب ٹھیک سے آ رہے ہوں اور میری شادی فرحان اَختَر سے ہوگئی ہو۔ لیکن جب آنکھ پوری طرح کھلتی ہے تو نئے سال کی پہلی صبح کو اٹھ کر سب سے پہلے گیزر ہی چلانا پڑتا ہے تو بےزاری کیسے نہ ہو۔
نیا سال کیا ہے؟ نئے سال کی تاریخ میں 2023 کی جگہ 2024 ہو جائے گا۔ نئے سال میں کیلنڈر کا پیج بَدَل جاتا ہے۔ نئے سال میں چیک لکھتے ہوئے ہزار بار غلطی ہوتی ہے۔ نئے سال میں آپ کی عمر کا ایک سال کم ہو جاتا ہے۔ نئے سال میں پھر سے نیا آئی فون آ جاتا ہے۔ نئے سال میں کسی ٹی وی شو کا نیا سیزن آ جاتا ہے یا پھر نئے سال میں کوئی نئی جنگ چھڑ جاتی ہے جس سے لوگوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ بس ملک کے سربراہوں کا لینا دینا ہوتا ہے۔ اے آیا جے نوا سال!
باقی سالوں کی طرح سال 2023 بھی خوار ہی رہا۔ وہی لوڈ شیڈنگ، وہی بجلی کے بِل، وہی شدید گرمی، وہی کرکٹ ٹیم کا ہارنا اور وہی میاں صاحب کی واپسی اور ان کا ماسک۔ وہی دن وہی راتیں۔ لیکن جب بھی نیا سال آنے والا ہوتا ہے تو میں لوگوں کےارادے سن کر کافی محظوظ ہوتی ہوں۔ سارا سال جو کام نہیں کیے ہوتے، لوگ وہ سارے کام نئے سال میں کرنے کا اِرادَہ بنا لیتے ہیں۔ کچھ نہیں بلکہ بہت ذیادہ لوگ نئے سال میں وزن کم کرنے کا اِرادَہ باندھ لیتے ہیں۔ کچھ شادی کا سوچ لیتے ہیں، کچھ نوکری بدلنے، کچھ شخصیت بدلنے کا اور کچھ صوفہ بدلنے کا۔ ارادے بہت سے ہوتے ہیں لیکن ان ارادوں کی ہوا نکل جاتی ہے جب نیا سال شروع ہونے پر کچھ نہیں بَدَل رہا ہوتا۔
سال 2023 پر تھوڑی نظر دوڑائیں تو زندگی کے عام مسئلوں کے علاوہ کچھ خاص مسئلے بھی نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ فلسطین کا مسئلہ۔ مجھے تحریر پڑھنے والوں کا تو پتہ نہیں لیکن فلسطین کے مسئلے کے بعد میرے لیے زندگی کا مطلب بَدَل سا گیا ہے۔ دن رات لاشیں دیکھ دیکھ کر میرے اندر ایک عجیب سی تبدیلی آ گئی ہے۔ دنیا کے فانی ہونے کا مطلب پھر سے سمجھ آ گیا ہے۔ ہر چیز بے معنی سی لگتی ہے۔ اکتوبر سے شروع ہوئی بمباری اب سال کے اختتام پر پہنچ چکی ہے۔ اِس کے بند ہونے کی بات ہو رہی ہے اور نہ ہی حالات بَدَل رہے ہیں۔ ایک مسلسل ظلم کی کہانی ہے جو ہمارے سامنے لکھی جا رہی ہے اور ہم اِس کا کچھ نہیں کر پا رہے۔ ایسے حالات میں نئے سال کی کیا خوشی منائی جا سکتی ہے؟
میرا مقصد آپ کو دُکھی کرنا یا آئینہ دکھانا نہیں ہے۔ میں تو بس اِس سال کی سب سے بڑی تبدیلی کا ذکر کر رہی ہوں جس سے میری زندگی اور اِس دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ باقی اب نیا سال کیا لے کر آتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ کیا ہماری پاکستانی ٹیم کچھ جیت پائے گی؟ کیا ڈالر نیچے آئے گا؟ کیا میاں صاحب پِھر سے وزیر اعظم بنائیں گے؟ کیا پیٹرول سستا ہو گا؟ کیا لہسن سستا ہوگا۔۔۔ آخر نئے سال میں ہو گا کیا، کچھ تو آپ خود ہی جان لیں گے، رہی سہی کسر میری تحریریں پوری کر لیں گی۔