اسمبلیاں تحلیل، گرفتاریاں، ضمانتیں پھر گرفتاریاں، نااہلی اور نئے چیئرمین کی تقرری ان سب واقعات کا سامنا ایک برس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کیا ہے۔ سال 2023 کو عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کیرئیر کا مشکل ترین سال کہیں تو غلط نہ ہوگا۔
سال 2023 میں پی ٹی آئی نے اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے نہ صرف اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کی کوشش کی بلکہ قانونی محاذ پر بھی خوب جنگ لڑی ہے۔ پی ٹی آئی اس سال ملک کی مقبول جماعت ہونے کے باوجود اپنے اہم رہنماؤں سے محروم ہوگئی حتیٰ کہ پارٹی کا چیئرمین بھی مجبوراً تبدیل کرنا پڑا۔
جنوری کے آغاز میں عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا اور 14 جنوری کو پنجاب جبکہ 18 جنوری کو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ جس کے بعد عمران خان نے دونوں صوبوں میں انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا تاہم تاریخ نہ ملنے کی صورت میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا، لیکن سپریم کورٹ کے 14 مئی کو انتخابات کروانے کے حکم پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
مزید پڑھیں
رواں سال سابق وزیراعظم عمران خان پر متعدد مقدمات درج کیے گئے جن میں فوجداری مقدمات، نیب کیسز، انسداد دہشتگردی اور اقدام قتل سمیت مختلف مقدمات شامل ہیں۔ عمران خان ایک روز میں درجن بھر مقدمات میں حاضر ہونے کے لیے لاہور سے اسلام آباد آتے رہے اس دوران کارکنان کے قافلے بھی ان کے ہمراہ عدالت آتے رہے، 28 فروری کو تحریک انصاف کے حامیوں اور پولیس کے درمیان پتھراؤ اور آنسو گیس کی شیلنگ ہوئی جس کے نتیجے میں درجنوں مقدمات درج کیے گئے۔
عمران خان کی رہائش گاہ پر زمان پارک میں کارکنان نے کیمپس بھی لگائے جہاں لنگر کا اہتمام بھی کیا جاتا رہا اور کارکنان سیکیورٹی کے لیے ڈیوٹیاں بھی سرانجام دیتے رہے۔ مارچ میں پیمرا نے سابق وزیراعظم عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی تاہم عدالت نے پیمرا کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا لیکن غیراعلانیہ پابندی تاحال قائم ہے۔
سانحہ 9 مئی جس نے ملکی سیاست کا رخ ہی تبدیل کردیا
سنہ 2023 میں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری مقدمے کا ٹرائل تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے مختلف اطلاعات بھی تھیں لیکن تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت سر چڑھ کر بول رہی تھی۔
ایک طرف عمران خان اپنی سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری جانب ان پر مقدمات کی بھی برمار تھی۔ ان کی رہائش گاہ زمان پارک کے باہرآنے والے لوگ انہیں زندہ پیر تک قرار دینے لگ گئے تھے۔ عمران خان کو انہی دنوں نیب مقدمات میں بھی نامزد کردیا گیا اور 9 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد ملک بھر میں ہنگامے اور توڑ پھوڑ شروع ہوگئی۔
عمران خان سپریم کورٹ کے حکم پر ضمانت پر رہا تو ہوگئے لیکن ان کی پارٹی کو 9 مئی کے واقعے سے چھٹکارا نہ ملا اور اسی واقعے نے پاکستان کا سیاسی رخ تبدیل کردیا۔ سپریم کورٹ نے 11 مئی کو عمران خان کو رہا کرنے کا حکم دیا اور وہ دوبارہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہوگئے۔
سابق وزیراعظم نے 14 مئی کو ایک خطاب کیا جس میں انہوں نے چیئرمین نیب کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد تحریک انصاف کے خلاف مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا اور 9 مئی واقعے میں متعدد کارکنان کی گرفتاریاں شروع ہوئیں۔
تحریک انصاف کے مطابق سانحہ 9 مئی میں اس کے 30 ہزار سے زائد کارکن گرفتار ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے پارٹی سے علیحدگی کے اعلانات شروع کردیے، پہلے مرحلے میں شیریں مزاری، عامر کیانی، محمود مولوی، فواد چوہدری، علی زیدی، عمران اسماعیل جیسے رہنماؤں نے پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور اس کے بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے پارٹی عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا جبکہ تحریک انصاف کی قیادت شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، پرویز الٰہی جیسی سینیئر قیادت گرفتار ہوئی جبکہ یاسمین راشد اور عالیہ حمزہ سمیت متعدد خواتین رہنما تاحال گرفتار ہیں۔
9 مئی کے واقعے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نہ چھوڑنے والے رہنماؤں نے روپوشی اختیار کرلی۔ اس دوران 9 مئی واقعے میں ملوث افراد پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا فیصلہ ہوا اور 102 سے زائد افراد کو فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
عمران خان کی گرفتاری
سابق وزیراعظم کو توشہ خانہ فوجداری مقدمے میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے 5 اگست کو 3 سال قید سزا کا حکم سنایا اور آخر کار انہیں زمان پارک لاہور سے گرفتار کر لیا گیا۔
عمران خان کو 3 سال قید کی سزا کا حکم اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کیا اور 28 اگست کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا لیکن ایف آئی اے نے سائفر مقدمے میں عمران خان کو گرفتار کرکے جوڈیشل ریمانڈ حاصل کر لیا۔
سابق وزیراعظم عمران خان 5 اگست سے جیل میں ہیں۔ انہیں پہلے اٹک جیل اور پھر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔ ابتدا میں انہوں نے گھر سے کھانا نہ ملنے اور اڈیالہ جیل میں ورزش کے لیے جگہ نہ ہونے کی شکایت کی تاہم وہ سہولیات انہیں بعد میں فراہم کردی گئیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے دسمبر میں انہیں سائفر مقدمے میں بھی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تاہم نیب القادر ٹرسٹ میں کی گرفتاری کی وجہ سے ان کی رہائی ممکن نہ ہوسکی۔
پارٹی کا نیا چیئرمین
22 نومبر کو الیکش کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کا انتخابی نشان ’بلا‘ واپس لینے کا فیصلہ کیا اور انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروانے کی مہلت دی۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے خود پارٹی چیئرمین کا الیکشن لڑنے کے بجائے بیرسٹر گوہر کو نامزد کیا اور وہ 2 دسمبر کو تحریک انصاف کے نئے چیئرمین منتخب ہوگئے تاہم اکبر ایس بابر اور دیگر کے اعتراضات پر الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے 22 دسمبر کو بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ سنا دیا۔
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جہاں سے عبوری حکمنامے کے تحت الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کردیا گیا جو کہ 9 جنوری تک برقرار رہے گا۔ تحریک انصاف کا اگلا سال بھی ممکنہ طور پر عدالتی اور قانونی جنگ لڑتے گزرے گا کیونکہ عمران خان اور پارٹی کے دیگر رہنما ابھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔