انتخابات کا طبل بج چکا ہے۔ اس وقت ہرطرف سازشی تھیوریوں کی گردش ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کبھی حقائق تلاش کرنا اتنا مشکل نہ تھا۔ سیاسی دنگل زوروں پر ہے۔ تمام پہلوان لنگوٹ باندھے اکھاڑے میں کود رہے ہیں۔
نواز شریف ہوں، آصف زرداری، عمران خان یا پھر مولانا سب اس سیاسی دنگل میں جیت کے لیے اپنا بہت کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہیں۔ سب اپنے الفاظ کے دائو پیچ دکھا رہے ہیں لیکن درمیان میں فیصلے کے لیے ایک طاقتور مگر متنازع ریفری بھی موجود ہے جس کی انگلی اٹھتی ہے تو چار و ناچار اس کا فیصلہ ماننا پڑتا ہے ۔
الزام لگتا ہے کہ پاکستان کو ان بحرانوں میں دھکیلنے والا بھی یہ ریفری ہی ہے۔ جس نے تبدیلی کے نام پر کھیل کھیلا وہ طلسماتی کرشمہ ان کے اپنے ہی گلے پڑ گیا، اتفاق سے ملک کی معیشت بھی تباہ کر دی گئی جس کو ٹھیک کرنے کے لیےنیا دنگل سجانا پڑرہا ہے۔ جس میں سیاسی پہلوان ایک دوسرے کو ہرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کھیل ایسا گنجلک اور اتنا الجھ چکا ہے کہ کھلاڑی بھی سمجھ نہیں پا رہے کہ کون سا داؤ کہاں آزمائیں؟
تحریک انصاف اس وقت اپنی ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے گرداب میں ہے۔ ایک طرف تو پی ٹی وی پر تحریک انصاف کی پریس کانفرنس چلا کر غیر سیاسی ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف جیل میں قید عمران خان اور پی ٹی آئی پر کریک ڈائون سے بھی نیوٹریلٹی پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کے شکوے کچھ نظر آئے لیکن اب وہ بھی مطمئن دکھائی دے رہی ہے کہ شاید اسے فیلڈ میں کچھ دے دیا گیا ہے۔ بیلٹ پیپر پر بلے کا انتخابی نشان ہو گا یا نہیں یہ بھی ملین ڈالر سوا ل ہے۔ لیکن پھر بھی تحریک انصاف انتخابی دنگل میں واپسی کی بھرپور تیاریاں کر رہی ہے۔
کہا جا رہا تھا کہ تحریک انصاف کو عام انتخابات کے لیے امیدوار نہیں ملیں گے۔ خود تحریک انصاف نے واویلا کیا کہ کاغذات جمع کرانے نہیں دیا جارہا لیکن سب توقعات کے برعکس ہوا۔ ایسے میں اگر عمران خان کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی اور نیوٹرل واقعی نیوٹرل ہوگئے توبڑا سرپرائز دینے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ فیصلہ تو ہو چکا۔ میدان صاف ہے اور نواز شریف نے بھی اس بار پھونک پھونک کر قدم رکھا ہے اور وہ ایک بار پھر ڈکٹیشن لینے آ رہے ہیں۔ لیکن اگر انتخابی نتائج کو مسلسل متنازع بنایا جاتا رہےتو خدانخواستہ یہ انتخاب مسائل سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے کا سبب بن جائیں گے؟ ان نتائج کو کون قبول کرے گا؟
انتخابات ہوں گے بھی یا نہیں، ایک اہم سوال اب تک یہی تھا۔ مان بھی لیتے ہیں کہ یہ پتھر پر لکیر ہے انتخابات ہو ہی جائیں گے لیکن نہ ختم ہونے والے مسائل ابھی بھی درپیش رہیں گے جس میں سر فہرست مسئلہ معیشت کا ہے ۔ کیا ملک میں معاشی استحکام آ سکے گا؟ معاشی غلامی کی جن زنجیروں میں ہم قید ہیں کیا اس سے آزاد ہو سکیں گے؟ جس معاشی، سیاسی اور آئینی بریک ڈاؤن کی جانب بڑھ رہے ہیں کیا اس میں بہتری آ سکے گی؟
کون جیتے گا،کس کی ہار ہو گی اور کس کی حکومت بنے گی، یہ باتیں شاید اب زیادہ دور نہیں، ہر شخص جانتا ہے کہ نتائج کیا آسکتے ہیں مگر انتخابات کوئی نیا موڑ بھی لے سکتے ہیں، جیت کا سحر ٹوٹ کر بکھر بھی سکتا ہے کیونکہ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے، اور سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔