لائبریری میں داخل ہوتے ہی میں نے الماری سے اپنی پسندیدہ کتاب نکالی اور ہال کے آخری میز پر جا بیٹھا۔ گفتگو کا سلسلہ کتاب نے شروع کیا، وہ آہستہ سے بجھے ہوئے لہجے میں بولی: ’اچھا ہوا تم آگئے، میں کئی دن سے بہت دکھی ہوں، تم آئے ہو تو باتیں کرکے مَن ہلکا ہو جائے گا۔‘
ارے بھئی! خیریت تو ہے تم اتنی دکھی کیوں ہو؟ میں کل تمہارے پاس آنے ہی والا تھا لیکن لائبریری کے باہر سیل لگی ہوئی تھی، کتابیں دیکھنے اور خریدنے میں دیر ہوگئی لہٰذا تمہیں ملنے نہ آسکا۔
کتاب نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولی ’ہاں میں بھی اسی کتب سیل کی بات کرنے والی تھی، اسی کا دکھ ہے مجھے، میری کتنی ہم جولیاں اور دوست مجھ سے بچھڑ گئیں، کئی تو الماری میں میرے ساتھ ہی رہتی تھیں، برس ہا برس کی رفاقت تھی، پہلے تو مجھے لائبریری والوں پر غصہ آیا کہ کیوں ان بے چاریوں کو بے گھر کر رہے ہیں لیکن پھر سوچا ان کا کیا قصور؟ قصور تو ان قارئین کا ہے جنہوں نے انہیں پھاڑا، نوچا، ان پر لکھا، اور ان کا حلیہ بگاڑا۔ لائبریری والے کب تک ان ردی ہوتی کتابوں کو سنبھالتے، شاید اسی لیے سیل لگا کر کتابیں اونے پونے بیچ دیں۔‘
تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد وہ دوبارہ بولی’تم اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو سمجھایا کرو ان کتابوں کا بھی تم پر کچھ حق ہے، انہیں احتیاط سے پڑھو اور ایسے سنبھال کر رکھو جیسے گھر میں اپنی قیمتی اشیا کو سنبھالتے ہیں، کیوں ! میں نے ٹھیک کہا ناں؟ ‘۔
دوست تم نے سو فیصد درست کہا! میں تو اپنے احباب سے ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ کتابوں کا احترام کریں، انہیں سلیقے اور محبت سے پڑھیں۔
کتاب خوشی سے ورق پھڑ پھڑانے لگی اور بولی ’تم جانتے ہو کہ تھامس کار لائل نے کہا تھا ’کتابوں میں ماضی کی روح رچی بسی ہوتی ہے۔‘ ماضی تو بیش قیمت لوگوں اور تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ہم سے بہت دور جا چکا ہوتا ہے لیکن اس کی بازگشت ہمیں کتابوں میں صاف سنائی دیتی ہے۔ ماضی سے ناتا جوڑے رکھنا ہو تو پھر کتابوں سے جڑے رہنا چاہیے۔
’اچھی کتابوں کا پڑھنا گزشتگان کے بہترین افراد سے گفتگو کرنا ہے۔ ماضی ہی نہیں، ہمارا حال اور مستقبل تک ان کتابوں میں ہے، یہ علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، ان سے یقین پختہ ہوتا ہے، ان میں ماضی کی یادیں، عقل کی باتیں، اخلاقیات، شاعری، فلسفہ، تاریخ اور سائنس ہے۔ کیا ہے جو، ان میں نہیں؟۔‘
کتاب نے کہا: ’چلو آج میں تمہیں اپنی دوست سے ملواتی ہوں، ذرا وہ کتاب تو لانا جو میرے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔‘ میں الماری سے کتاب اٹھا لایا۔
نئی دوست کہنے لگی ’آج ہماری یاد کیسے آگئی؟ چلو چھوڑو ! تمہارے پاس کچھ وقت ہے تو چند دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں سنادوں۔‘
میں نے کہا:’ارے واہ، نیکی اور پوچھ پوچھ، ضرور سناؤ۔‘
نئی دوست نے صفحے پلٹے اور شروع ہوگئی ’پچھلی صدی میں ایک مصنفہ گزری ہیں جن کا نام ’باربرا کارٹ لینڈ‘ تھا۔ وہ 9 جولائی 1901 میں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے ڈھیروں کتابیں لکھیں لیکن ان کی شہرت ان کے رومانوی ناولوں کی وجہ سے تھی۔کہانی سیدھے سادے اور مہذب انداز میں بیان کی جاتی لیکن اس کا انجام ہمیشہ چونکا دینے والا ہوتا تھا۔ جادوی مہم جوئی، سنسنی خیزی اور ہر مصیبت یا رکاوٹ پر محبت کی فتح نے ناولوں کی مقبولیت میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا۔ قارئین ان کے ناول ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ باربرا بیسویں صدی کی تیز ترین تخلیق کار تھیں۔ 1983 میں محض ایک برس کے دوران انہوں نے 23 ناول تحریر کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔
باربرا کارٹ لینڈ کی تخلیقات میں ناولوں کے علاوہ ڈرامے، کھانا پکانے کی تراکیب اور تاریخی شخصیات کی سوانح عمریاں بھی شامل ہیں۔ باربرا نے اپنے بھائی رونالڈ کارٹ لینڈ کی سوانح عمری بھی لکھی جو دوسری عالمی جنگ میں مارا گیا تھا۔ رونالڈ کارٹ لینڈ برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بھی تھا۔ اس سوانح عمری کا دیباچہ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے لکھا تھا۔ 1925 میں باربرا کا پہلا ناول Jigsaw شائع ہوا تھا۔
21 مئی 2000 میں بابرا کارٹ لینڈ ’نروس نائینٹیز‘ کا شکار ہو کر 99 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئیں اور اپنے قارئین کے لیے 723 سے زیادہ کتابیں چھوڑ گئیں، جن میں 675 رومانوی ناول شامل ہیں۔ باربرا نے ’جان کریزی‘ کا 564 کتابوں کا ریکارڈ بھی توڑا جو کسی برطانوی مصنف کی طرف سے لکھی گئی سب سے زیادہ کتابیں ہیں۔
’ارے نہیں بھئی! 723 کتابیں، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔‘
نئی دوست نے مسکراتے ہوئے کہا: ’مجھے معلوم تھا تم یہ سوال پوچھو گے لیکن ابھی حیران ہونا باقی ہے۔ باربرا کارٹ لینڈ عام طور پر سال میں 10 کتابیں لکھ لیتی تھیں۔ یہ اتنے شوق سے پڑھی جاتی تھیں کہ پڑھنے والوں نے انہیں ایک ارب کی تعداد میں خریدا اور 36 زبانوں میں ان کے تراجم ہوئے۔
لو بھئی اب تم یہ تعداد سن کر پھر حیرت سے نہ اچھل پڑنا۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی؟ باربرا 77 برس کی ہوئیں تو ان کی کتابوں کی مانگ بہت بڑھ گئی، 1983ء میں باربرا کو دنیا کی ٹاپ سیلر مصنفہ کا اعزاز بھی حاصل ہوا جو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی درج ہے۔ ان کی شہرت کو دیکھتے ہوئے پبلشر نے ان سے کہا: ’میڈم! ذرا رفتار بڑھائیے تاکہ ہم قارئین کی فرمائش پوری کرسکیں۔ باربرا کے لیے کیا مشکل تھا، وہ اگلے 20 برس تک ہر مہینے 2 کتابیں لکھتی رہیں۔‘
میں نے حیران ہو کر بلند آواز میں کہا ’مہینے میں 2 کتابیں‘؟ لائبریری میں بیٹھے دوسرے لوگ میری طرف دیکھنے لگے، میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں معذرت کی اور نئی دوست نے بات جاری رکھی: ’723 کتابوں کا اثاثہ چھوڑ کر باربرا کارٹ لینڈ 99 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں تو ان کے چاہنے والے یہ سمجھے کہ وہ ان کی تحریروں سے محروم ہوگئے ہیں لیکن اشاعتی ادارے (بپلشر، ایم۔وائے بکس) نے ان کی موت کے بعد اچانک یہ اعلان کر دیا کہ باربرا کے مداح آئندہ 13 برس سے زیادہ عرصے تک ہر ماہ ان کا ایک نیا ناول پڑھ سکیں گے۔ یہ اعلان سن کر تو لوگ حیران رہ گئے، بالکل اسی طرح جیسے تم اس وقت منہ کھولے حیرت سے مجھے تک رہے ہو۔‘
میں نے مسکراتے ہوئے کہا: ’ہاں بھئی اگر کوئی شخص قبر میں بیٹھا ناول لکھتا رہے حیرت کی بات تو ہے۔‘
نئی دوست نے میری حیرت دور کرتے ہوئے کہا: ’ہوا یہ کہ جب باربرا کا انتقال ہوا تو ان کے کمرے سے گلابی ربن میں لپٹے ہوئے 160 ناولوں کے مسودے ملے۔ ہوسکتا ہے انہوں نے خود انہیں معیاری نہ سمجھا ہو یا پھر وہ ان میں تبدیلیاں کرنا چاہتی ہوں لیکن ان کے پبلشر کا کہنا تھا کہ یہ سب اسی معیار کے ہیں جس معیار کی ان کی پہلی کتابیں ہیں۔ لہٰذا اب یہ ہر ماہ ایک ایک کرکے چھپتے رہیں گے اور ناولوں کے اس سلسلے کا نام ’دی باربرا کارٹ لینڈ پنک کلیکشن‘ ہوگا۔ پنک اس لیے کہ یہ باربرا کا پسندیدہ رنگ تھا اور اسی لیے انہوں نے مسودوں کو گلابی ربن میں باندھ رکھا تھا۔ باربرا کے صاحبزادے ایان کا کہنا تھا کہ ’میری ماں نے دلچسپ اور بھرپور زندگی جی، جب اکثر لوگ ریٹائر ہو چکے ہوتے ہیں، میری ماں نے 77 سے 97 برس کی عمر میں انتقال سے قبل 400 کتابیں لکھیں۔ سب یہی کہتے ہیں کہ میری والدہ خاص تھیں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ سب سے زیادہ منفرد تھیں۔
’اچھا اب تمہیں یہ بھی بتادوں کہ باربرا صرف کتابیں ہی تخلیق نہیں کرتی تھیں بلکہ اخباروں کے لیے کالم بھی لکھتی تھیں، جن میں دنیا جہان کی باتیں ہوتی تھیں۔ باربرا ’ڈیلی ایکسپریس‘ کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کالم نگار تھیں۔ وہ رفاہِ عامہ کے کام بھی کرتی تھیں اور انہوں نے لندن کے ایک بہت مشہور اور بلند ہوٹل کی انٹیریئر ڈیکوریشن بھی کی۔ کمال کی بات کہ 883 کتابیں لکھنے کے بعد انہیں رفاہی کاموں اور ڈیکوریشن کے لیے بھی وقت مل گیا۔
’بھئی یہ 723 کے بجائے 883 کتابیں کہاں سے ہوگئیں‘
’723 میں 160 نئے ناول جمع کرو 883 ہو جائیں گے۔‘ نئی دوست نے فوراً جواب دیتے ہوئے بات جاری رکھی۔’1991ء میں ادبی اور فلاحی خدمات کے اعتراف میں ملکہ برطانیہ نے انہیں(Dame of the Order of the British Empire) کا خطاب بھی دیا۔ یاد رہے کہ باربرا، ملکہ ایلزبتھ دوم کی ڈریس ڈیزائنر بھی تھیں، برطانیہ میں گلابی ملبوسات باربرا کی پہچان تھے۔‘
دل ہی دل میں باربرا کارٹ لینڈ کے حوصلے اور لگن کی تعریف کرتے ہوئے گھڑی پر نظر ڈالی تو نئی دوست کہنے لگی: ’میں اِک اور دلچسپ بات سنانے والی تھی لیکن تم تو گھڑی دیکھنے لگے، چلو پھر سہی۔‘
’بات جلد ختم کر لو تو رُک جاتا ہوں وگرنہ آئندہ ملاقات پر اٹھا رکھتے ہیں۔‘
سنتے جاؤ، مزے کی بات ہے: ’جنوری 1988 میں فرانس نے باربرا کو ’گولڈ میڈل آف پیرس‘ عطا کیا، یہ پیرس کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے۔ اعزاز باربرا کو اس لیے دیا گیا تھا کہ فرانس میں ان کے ناولوں کی اڑھائی لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔
باربرا کو ماحولیات سے متعلقہ سرگرمیوں میں بھی دلچسپی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے وصیت کر رکھی تھی کہ ’مرنے کے بعد مجھے گتے کے کفن میں سپرد خاک کیا جائے۔‘ لہٰذا ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہیں گتے کے کفن میں آبائی قصبے ہیٹ فیلڈ میں شاہ بلوط (Oak tree)کے درخت تلے دفنایا گیا، یہ وہ درخت تھا جسے ملکہ ایلزبتھ اول نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔‘
میں نے کتاب بند کی اور تیزی سے لائبریری کی سیڑھیاں اتر کر فٹ پاتھ پر چلتا ہوا ہجوم میں گم ہوگیا۔ لیکن میرے ذہن میں سوال سُلگ رہا تھا کہ باربرا کارٹ لینڈ کی ایک ارب سے زیادہ کتب برطانیہ جبکہ دوسرے صرف ایک ملک (فرانس) میں بھی اڑھائی لاکھ کتابیں فروخت ہوتی ہیں لیکن ہمارے 22 کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک میں بڑے سے بڑے مصنف کی 500 کتابیں شائع ہوتی ہیں۔‘
اچانک ایک موڑ پر باربرا کارٹ لینڈ نے میرے کان میں سرگوشی کی اور اپنے ناولوں کی غیر معمولی مقبولیت کا راز یوں بتایا کہ ’لوگ خواب دیکھنا چاہتے تھے اور میں انہیں بہت اچھے خواب دکھاتی تھی۔‘