ملک بھر میں جان بچانے والی ضروری ادویات کی پیداوار میں 21 فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس کے بعد ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث دوا ساز کمپنیوں نے ہاتھ کھڑے کردیے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دواساز کمپنیوں نے ادویات کی پیداوار غیر اعلانیہ طور پر روک دی ہے جس کے باعث ملک کے مختلف اضلاع میں جان بچانے والی ضروری ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں ادویات کی پیداوار میں 21.5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس کی بڑی وجہ خام مال کی درآمد میں حائل حالیہ بندشیں ہیں جس کے باعث لیٹر آف کریڈٹ کے اجرا میں تاخیر سرِفہرست رہا ہے۔
پاکستان ڈرگز لائرز فورم کے مطابق ملک میں اس وقت تقریباً 10 فیصد زندگی بچانے والی درآمدی ادویات کی قلت ہے جن میں ذیابیطس، سانس کی بیماریوں اور دل اور گردے کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب پنجاب کے 41 اضلاع کے میڈیکل اسٹورز اور فارمیسیز پر مختلف جان لیوا بیماریوں جیسے کینسر، امراض قلب، اعصابی عارضے کے علاج کے لیے ادویات سمیت متعدد ضروری اینٹی بائیوٹک دستیاب نہیں ہیں۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی سفارش پر ادویات کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے اور حال ہی میں ڈریپ نے 19 ادویات کی قیمتوں میں معمولی اضافے کی منظوری دی ہے جسے ملکی دوا ساز صنعت نے ناکافی قرار دیا ہے۔
فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے مطابق ادویات کی پیداواری لاگت حکام کی طرف سے دی گئی قیمت سے زیادہ ہے جس کے باعث ملٹی نیشنل اور مقامی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے ضروری ادویات کی تیاری بند کردی ہے۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سربراہ فاروق بخاری کے مطابق بینکوں نے درآمدات کی ادائیگیوں کی ضمانت کے طور پر لیٹرز آف کریڈٹ کا جنوری میں اجرا کرتے ہوئے صرف 50 فیصد درخواستیں ہی منظور کیں۔
فاروق بخاری کا کہنا تھا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث صرف نصف درخواستیں منظور ہونے کی وجہ سے ایک طرف ادویات کی قلت اور دوسری جانب تھوک فروش اور دوکاندار کی جانب سے ذخیرہ اندوزی جیسے مسائل نے جنم لیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 4 ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیاں پہلے ہی اپنا کاروبار بند کرچکی ہیں جبکہ 40 مقامی کمپنیاں بھی پیداواری لاگت میں غیر معمولی اضافے کے باعث اپنا کاروبار لپیٹنے کے در پہ پہنچ چکی ہیں۔