جنرل باجوہ کے پاس نواز شریف اور مریم کے لیے انصاف مانگنے گیا تھا، محمد زبیر

اتوار 31 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے میڈیا سیل میں فوج مخالف بیانیہ نہیں بنتا تھا اس حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کی گئیں۔

اتوار کے روز ایک انٹرویو میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما محمد زبیر نے کہا کہ ’وہ مریم نواز کے بہت قریب تھے، میڈیا سیل میں بھی میرا اہم کردار تھا اس دوران کبھی بھی میڈیا سیل میں فوج کے خلاف بیانیہ نہیں بنایا جاتا تھا، فوج مخالف بیانیے کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی گئیں۔

عوام کو یاد دلا رہا ہوں کہ میری ن لیگ کے لیے کیا خدمات ہیں

انہوں نے کہا کہ 2018 میں مجھے ن لیگ چھوڑنے کے لیے بہت ساری پیش کش کی گئیں، میں عوام کو یاد دلا رہا ہوں کہ میری ن لیگ کے لیے کیا خدمات ہیں۔ جب پی ڈی ایم بنی وہ وقت سب سے مشکل تھا، تب مجھے نواز شریف اور مریم نواز کا ترجمان بنایا گیا تاہم میں اب نواز شریف یا مریم نواز کا ترجمان نہیں ہوں۔

محمد زبیر نے کہا کہ پارٹی قیادت سے ان کی دوریاں کیوں پیدا ہوئیں یہ ایک لمبی داستان اور سلسلہ ہے، انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی قرابت تھی۔ جنرل (ر) قمر باجوہ سے گھنٹوں طویل ملاقاتیں پارٹی معاملات سے متعلق ہوئیں۔ تاہم پارٹی میں جو کچھ تہس نہس ہوا اس میں جنرل (ر) باجوہ کا ایک کردار ضرور تھا۔

سب میں نے پارٹی کی مرضی اور منشا سے کیا

انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ میاں محمد نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے ساتھ نا انصافیاں ہوئیں، میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس نواز شریف اور مریم نواز کے لیے انصاف مانگنے گیا تھا اور یہ سب میں نے پارٹی کی مرضی اور منشا سے کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ایک مضبوط بیانیہ یہی تھا کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ اور اس بیانیے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میرے روابط محض الزامات ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں محمد زبیر نے کہا کہ جب پنجاب میں سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک لائی جا رہی تھی تو انہوں نے اس کی برملا مخالفت کی تھی اور تجویز کیا تھا کہ ایسا نہیں کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 2021 میں پورے پاکستان میں 13 ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 12 سیٹیں پاکستان تحریک انصاف ہاری جس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا گراف کیسے نیچے آنے لگا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میرے یہ بھی اعتراض تھا کہ اس وقت پاکستان معاشی اعتبار سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے پاس بری طریقے سے پھنسا ہوا ہے اور ایسے میں کیوں کر کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کی خواہش کر سکتی ہے۔

آئی ایم ایف کے دباؤ کے باعث ہمیں غیر معروف بجٹ پیش کرنا پڑا

حکومت کو 2022 کا جو بجٹ پیش کرنا تھا وہ مکمل طور پر آئی ایم ایف کی مرضی سے دینا تھا اس میں یہ طے تھا کہ یہ بجٹ مکمل فل سٹاپ بجٹ ہو گا اسے آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر آپ کہیں بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتے۔

یہی وجہ کے آئی ایم ایف کے دباؤ کے باعث ہمیں غیر معروف بجٹ پیش کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں ملک میں پیٹرولیم مصنوعات سمیت مہنگائی کا ایک طوفان سامنے آیا اور یقیناً اس کے عوام کے اندر حکومت کی ساکھ کے بارے میں انتہائی منفی اثرات سامنے آئے۔

محمد زبیر کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت جاننا ضرروی ہے کہ ستمبر میں آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہو گیا تھا اور مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کے معاملات سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے تھے، ستمبر میں تو حکومت کے پاس پیسے آ گئے تھے، ہم یہ پیسے ملنے کے بعد 9 ماہ تک یہ بیانیہ جاری کرتے رہے کہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات خراب کر کے چلی گئی جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی ہوئی لیکن وہ تو ستمبر میں پیسے آپ (اتحادی حکومت ) کو مل گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب ستمبر میں آپ کو آئی ایم ایف کی جانب سے پیسے مل گئے تھے اگست میں حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ ہو چکا تھا، 29 اگست کو بورڈ نے اسے منظور بھی کر لیا۔ جب یہ بحال ہو گیا تو اس کا نومبر کے پہلے ہفتے میں 9 ویں جائزہ لیا جانا تھا۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی اور اُمید باقی نہیں تھی

اس دوران حکومت تبدیل ہو گئی اور اسحاق ڈار آ گئے جنہوں نے سرعام یہ بیانات دیے کہ ہم آئی ایم ایف پر انحصار نہیں کرتے اور نہ ہی آئی ایم ایف ہمیں کسی بات پر ڈکٹیٹ کر سکتا ہے جب کہ یہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی اور اُمید باقی نہیں تھی کیوں کہ دوست ممالک نے واضح کہہ دیا تھا کہ وہ اس وقت امداد دیں گے جب آئی ایم ایف بحال ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا، اور جب نومبر میں اس میں تاخیر ہوئی تو ملک میں افراتفری پھیل گئی ۔

انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان کے بعد مفتاح اسماعیل نے بھی معاشی صورت حال بہتر کر لی تھی لیکن بیچ میں جو 9 ماہ اسحاق ڈار کا دور رہا ہے اس میں مسائل پیدا ہوئے اور یوں جو نقصان پاکستان تحریک انصاف کو عثمان بزدار نے پہنچایا وہ نقصان پاکستان مسلم لیگ ن کو اسحاق ڈار سے پہنچا، اس کا اکیلے اسحاق ڈار ہی ذمہ دار نہیں بلکہ دیگر لوگ بھی ہیں۔

ماضی میں الیکشن صاف و شفاف نہیں ہوئے

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملک کو معاشی، سیاسی اور سماجی مستحکم بنانا ہے تو اس کے لیے صاف اور شفاف انتخابات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ آج اگر پاکستان غیر مستحکم ہے تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ماضی میں الیکشن صاف و شفاف نہیں ہوئے اور آج پھر وہی کچھ پھر چل رہا ہے، اگر آج ہی ان الیکشن کو متنازع بنایا جا رہا ہے تو کل کو تو اسے کوئی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میرا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ پاکستان کو آئینی طورپر جمہوری انداز میں چلایا جانا چاہیے۔ ورلڈ بینک کی بھی رپورٹ آ چکی ہے کہ پاکستان میں موجودہ نظام نہیں چل سکتا، اگر یہی نظام جاری رہا تو پاکستان ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔

ہمارا بیانیہ جو پہلے تھا وہی ہونا چاہیے

ایک اور سوال کے جواب میں محمد زبیر نے کہا کہ صاف اور شفاف انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مطمئن کر کے الیکشن کے عمل میں جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میرا مؤقف واضح ہے کہ ہمارا بیانیہ جو پہلے تھا وہی ہونا چاہیے، پاکستان تحریک انصاف ہو یا اختر مینگل ہو، کوئی بھی ہو اس کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونی چاہیے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ میاں محمد نواز شریف کی سیاسی کیریئر میں خصوصاً موجودہ وقت میں ان پر ’پرو اسٹیبلشمنٹ ‘ یا سلیکٹڈ کا لفظ ساتھ لگایا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp