مکافات عمل کا سال

پیر 1 جنوری 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تاریخ بہت سے فیصلے وقت پر چھوڑ دیتی ہے۔ کس نے عظمت کا مینار کہلانا ہے؟ کس کو ذلت کا استعارہ بننا ہے؟ کس کو رہتی دنیا نے یاد رکھنا ہے؟ کس کو وقت کی دھول بن جانا ہے؟ کس کے چہرے سے نقاب اتر جانا ہے اور کس کے بارے میں حقائق طشت از بام نہیں کرنے؟ یہ سب فیصلے وقت کے سپرد ہوتے ہیں۔

وقت ایک وسیع استعارہ ہے۔ چاہیں تو وقت پر برس کی بندش لگا کر اسے مقید کر سکتے ہیں، سرحدیں متعین کر سکتے ہیں۔ بسا اوقات ایک برس صدیوں میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ ایک سال دہائیوں کے واقعات کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ تو برس کی بات ہے. کبھی کبھار تو ایک لمحہ ہی تاریخ کے سب اسباق کا نچوڑ ہوتا ہے۔

2023 کہنے کو تو ایک برس تھا جو گزر گیا۔ ایک حال تھا جو ماضی ہوا۔ مگر ان 365 ایام میں جو کچھ ہوا، وہ تاریخ میں پہلے کبھی ایک برس میں نہیں ہوا۔ ان آنکھوں نے جو کچھ ایک سال میں دیکھا اس کی توقع بہت سے  لوگ برسوں سے لگائے بیٹھے تھے۔ اس سال کے اثرات اور ممکنات کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ

آنے والے زمانے تیرے ہیں

ہے تیرا دور، دور آئندہ

اس سال کا سب سے اندوہناک واقعہ 9مئی ہے جس کی سنگینی سے تاریخ کے اوراق ہمیشہ سیاہ رہیں گے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو کچھ ایک جماعت کے کارکنوں نے کیا وہ ناقابل بیان و برداشت ہے۔ قصور کس کا تھا ؟ کس نے عمران خان کا ہوا کھڑا کیا؟ کس نے سماج میں مسلسل نفرت اور شدت کا درس دیا؟ احکامات جنرل فیض کے تھے یا عمران خان اپنے تئیں فساد عامہ کا فیصلہ کرچکے تھے؟ اس پر بہت بحث ہو چکی ہے۔ لیکن اہم بات یہ  ہوئی کہ 9مئی کے انتشار پسند تو انتشار پھیلا کر بکھر گئے اور پھر ریاست نے اپنی رِٹ کو تسلیم کروایا۔ اس کے لیے اگرچہ ریاست کو اپنے شہدا کی یادگاروں کی قربانی دینا پڑی۔

عمران خاں گرفتار ہوئے۔ رعونت اور تکبر کا بت سرنگوں ہوا۔ دُشنام اور الزام کا ایک باب بند ہوا۔ نفرت اور فساد کا کواڑ بھیڑ دیا گیا۔ اس گرفتاری کے پس منظر میں ریاست نے تسلیم کیا کہ ہائبرڈ نظام ایک سنگین غلطی تھا۔ عمران خان ایک رانگ نمبر تھا۔ تحریک انصاف پر سٹہ کھیلنا گھر بار ہارنے کے مترادف تھا۔ اس کے بعد اس برس میں جو کچھ بھی ہوا وہ اسی سانحہ 9مئی کے تناظر میں ہوا۔ آنے والے برسوں میں بھی جو کچھ ہو گا وہ اسی سانحے کا ردعمل ہو گا۔

نواز شریف کی وطن واپسی ایک بڑا واقعہ ہے، جو اسی برس میں وقوع پذیر ہوا۔ وہ جن کے خلاف عدالتوں نے جھوٹے فیصلے سنائے۔ جن کو سزا دینے کی خاطر معزز عدلیہ کے ججوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ جن کے خلاف بھرپور میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ جن کے گھروں کے باہر لندن میں روز بازار دشنام سجایا گیا، بالآخر وہ وطن واپس آ گئے۔ واپس بھی اس شان سے آئے کہ مینار پاکستان پر لاکھوں کا مجمع استقبال کے لیے موجود تھا۔ فضا نعروں سے گونج گئی۔ دیوانے مستانے جوق در جوق آئے اور قافلے میں شامل ہو گئے۔

وہی نواز شریف جس کا نام تک ٹی وی پر لینا منع تھا، وہی نواز شریف ایک بار پھر فیصلہ کن اور اٹل ہو گیا۔ اسی کی مرضی سے کار حکومت کے فیصلے ہونے لگے، اسی کی منشا سے بیرون ملک وطن کی عزت بحال ہونے لگی۔ اسی  کا نام چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے کے لیے سامنے آنے لگا۔ تاریخ کے فیصلوں میں بہت وقت لگتا ہے لیکن تاریخ نے جس طرح  چند برسوں میں نواز شریف کو پھر سرخرو کیا اس پر مستقبل کا مؤرخ بھی قلم بہ دندان ہوگا۔

اسی برس کا ایک اور اہم واقعہ جس نے سابقہ نظام کی طنابیں مزید کس دیں، وہ قاضی فائز عیسی کا چیف جسٹس کی مسند پر براجمان ہونا تھا۔ ان کے چیف جسٹس بننے سے پہلے چند لوگوں نے جس طرح انصاف کو پامال کیا۔ جس طرح 3 کے ٹولے کی داستانیں معروف ہوئیں۔ جس طرح ٹرکوں والے جج مشہور ہوئے۔ جس طرح انصاف کو بالائے طاق رکھ کر تحریک انصاف کی پذیرائی کی گئی، وہ اس ملک کے نظام انصاف پر ہمیشہ کے لیے ایک کلنک کا ٹیکا رہے گی۔ بندیال ہو، کھوسہ ہو، گلزار ہو، یا ثاقب نثار ، ان سب کے بارے میں جاوید ہاشمی 2014 میں ہمیں بتا چکے تھے۔ ان سب نے مل کرانصاف کی وہ درگت بنائی  کہ ہماری عدالتیں دنیا بھر میں صرف ٹھٹھے کا سبب رہ گئیں۔ ہماری سپریم کورٹ کی پیشانی یکطرفہ فیصلوں سے دغدار ہو گئی۔

ان کے جانے کے بعد جب قاضی فائز عیسی مسند انصاف پر بیٹھے تو یوں لگا کہ یہاں کا نظام انصاف نہیں بلکہ یہ ملک ہی بدل گیا۔ عدلیہ کی کارروائی براہِ راست نشر ہونے لگی۔ آئین کی حرمت کی بات ہونے لگی۔ آئین شکنوں پر آنے والے عتاب کی پیشگوئیاں ہونے لگیں۔ الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان ہو گیا۔ مشرف کیس، شوکت عزیز صدیقی اور فیض آباد دھرنا کیس کی صدائیں پھر سے لگنے لگیں۔

ایک مدت کے بعد باقی سیاسی جماعتوں کو یوں لگا کہ یہاں بھی انصاف ملنے کا امکان ہے۔ یہاں بھی کوئی عدالت ہے اور یہاں بھی کچھ ججز ہیں جو انصاف کرنے کا تہیہ کر بیٹھے ہیں۔ایسا برسوں کے بعد اس سال میں ہوا۔

ہم نے اب تک  وہ باتیں کیں جو کسی اور برس میں نہیں ہوئی۔ وہ واقعات بیان کیے جو اس برس کو نادر بناتے گئے۔ لیکن اس برس بہت سے ایسے کام ہوئے جو برسوں سے ہو رہے ہیں جن میں تبدیلی کی جستجو تو ہے مگر کسی میں جرات نہیں۔

اس برس بھی کسی آئین شکن ڈکٹیٹر کا احتساب نہیں ہو سکا۔ اس برس بھی کسی جج یا جرنیل کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ اس برس بھی عمران خان کے انقلاب کے خالق جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے گریبان تک کسی کے ہاتھ نہیں پہنچ  سکے۔ اس برس بھی ہائبرڈ نظام کی بساط بچھانے والوں کو سزا نہیں دی جا سکی۔

یہی نہیں بلکہ اس برس بھی ووٹ کی حرمت کا فلک شگاف نعرہ سرگوشیوں میں بدل گیا۔ اس برس بھی پارلیمان کی توقیر کا عزم دم توڑ گیا۔ اس برس بھی طلبا اور مزدور یونینز بحال نہیں ہو سکیں۔ اس برس بھی انسانی حقوق کی پاسداری میں ہمارا درجہ کم تر رہا۔ اس برس بھی غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس برس بھی بے روزگاری جوانان قوم کو چاٹتی رہی۔ اس برس بھی سیاست دانوں کی خوب تذلیل اور تضحیک ہوئی ۔ اس برس بھی جمہوریت،  ججوں اور جرنیلوں کی محتاج رہی۔ اس برس بھی میڈیا پر عمرانی دور میں تخلیق کیے گئے زر خرید اینکروں اور بے ضمیر تجزیہ کاروں کا قبضہ رہا۔  اس برس بھی آزادیِ اظہار کی میزان پر پاکستان کا پلڑا ہلکا رہا۔

قصہ کوتاہ اگرچہ ہم گزشتہ برس کو’مکافات عمل کا سال‘ کہہ سکتے ہیں، لیکن اپنے کچھ فیصلوں کے اعتبار سے یہ برس گزشتہ  75برس سے قطعاً مختلف نہیں تھا ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp