پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی بورڈ نے 2 سے 31 دسمبر 2023ء تک ملک بھر سے 2300 امیدواروں کے انٹرویوز کیے، پارٹی قائد محمد نوازشریف اور صدر شہبازشریف کے زیرصدارت پارلیمانی بورڈ نے طویل نشستوں پر مشتمل اس جمہوری مشق کو انجام دیا۔
یہ عمل تقریبا 184 گھنٹے پر محیط تھا جس میں مرد و خواتین سمیت تمام امیدواروں کو بڑی تسلی سے سنا گیا، ان کی سفارشات اور تجاویز پر غور کیا گیا، لیکن اس وقت ن لیگ کے کئی رہنما صرف اس وجہ سے ناراض ہیں کہ پارٹی انہیں ٹکٹ کے معاملے پر نظر انداز کر رہی ہے جبکہ ان کا مؤقف ہے کہ وہ مشکل وقت میں پارٹی بیانیے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔
لاہور: تین حلقے، تین کہانیاں
ن لیگ کے ذرائع کے مطابق اس وقت لاہور کے 3 حلقوں میں ن لیگ کے سینیئر رہنما ناراض ہیں۔ لاہور کے حلقہ این اے 121 سے شیخ روحیل اصغر اور ایاز صادق ٹکٹ لینے کے خواہشمند ہیں۔ شیخ روحیل اصغر نے پارٹی کو پیغام بجھوایا ہے کہ اگر انہیں ٹکٹ نہ ملا تو وہ اسی حلقے سے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑیں گے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کے بعد ایاز صادق کو کسی اور حلقے سے الیکشن لڑوایا جائے گا یا انہیں سینٹ الیکشن میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔
اسی طرح، لاہور کے حلقہ این اے 127 سے ن لیگ کی طرف سے عطا تارڑ الیکشن لڑنے کا اردہ رکھتے ہیں جبکہ یہ حلقہ 2018ء میں علی پرویز ملک کے پاس تھا اور وہ اس مرتبہ بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیکن ابھی تک علی پرویز ملک کو گرین سگنل نہیں دیا گیا۔ ان کی والدہ شائستہ پرویز ملک کو ایم این اے کی مخصوص نشتوں میں شامل کیا گیا ہے، سابق ایم این اے ملک پرویز کی وفات کے بعد شائستہ پرویز ملک حلقہ این اے 133 سے ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئی تھیں۔
مزید پڑھیں
لاہور کے حلقہ این اے 117 شاہدرہ سے استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ن لیگ کے 2 دفعہ ایم این اے رہنے والے ملک ریاض اس وقت پارٹی سے اس لیے ناراض ہیں کہ اگر ن لیگ نے آئی پی پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی تو انہیں ٹکٹ نہیں ملے گا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے، ہوسکتا ہے کہ ایاز صادق کو حلقہ این اے 117 سے ٹکٹ مل جائے کیونکہ اگر پارٹی نے الیکشن لڑنا ہے تو ایاز صادق موزوں امیدوار ہوں گے کیونکہ وہ پہلے 2 دفعہ علیم خان کے مقابلے میں الیکشن لڑ کر جیت چکے ہیں۔ مریم نواز بھی چاہتی ہیں کہ این اے 117 سے ملک ریاض کو ٹکٹ نہ دیا جائے کیونکہ کچھ عرصہ قبل مریم نواز نے شاہدرہ میں جلسہ کیا تھا جو فلاپ ہوگیا تھا جس پر مریم نواز ملک ریاض سے کافی ناراض تھیں۔
طلال چوہدری شہباز شریف گروپ سے ناراض
فیصل آباد کے حلقہ این اے 102 سے طلال چوہدری ن لیگ کی ٹکٹ سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن لیگی ذرائع کے مطابق پارٹی وہاں سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ نواب شیر وسیر کو دینا چاہتی ہے حالانکہ 2018ء میں نواب شیر وسیر پی ٹی آئی کی ٹکٹ سے وہاں سے کامیاب ہوئے تھے لیکن پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں نواب شیر وسیر نے ن لیگ کی حمایت کی تھی اور نواب شیر وسیر کو اس کے بدلے میں ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ طلال چوہدری اس حلقے سے الیکشن نہیں جیت سکتے، پارٹی انہیں سینٹ کے الیکشن میں ایڈجسٹ کرنے پر تیار ہے۔
شہباز شریف نے بھی طلال چوہدری کو اس حلقے سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ طلال چوہدری سب امیدیں اس وقت نواز شریف سے لگا کر بیٹھے ہیں کہ وہ شاید انہیں این اے 102 سے ٹکٹ دلا دیں۔ اس حلقے میں نواب شیر وسیر کا ووٹ بینک طلال چوہدری سے بہتر ہے، اگر طلال چوہدری کو اس حلقے سے ٹکٹ ملتا ہے تو نواب شیر وسیر آزاد حثیت سے الیکشن لڑیں گے جس سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔
عطا تارڑ بمقابلہ خواجہ سعد رفیق
عطا تارڑ گوجرانولہ کے حلقہ این اے 77 سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں اور کافی عرصہ سے اس حلقے میں کام بھی کر رہے ہیں لیکن اس حلقے سے ن لیگ سے ٹکٹ ہولڈر محمود بشیر ورک بھی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق محمود بشیر ورک کی ٹکٹ لینے میں سپورٹ کر رہے ہیں۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ عطا تارڑ اتنی تیزی سے پارٹی کے اندر آگے جارہے ہیں کہ سینیئر لوگ نظر انداز ہو رہے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کا مؤقف درست ہے کہ اگر عطا تارڑ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں تو صوبائی اسمبلی کی نشست پر انہیں پی پی 35 سے ٹکٹ دیا جائے۔ خواجہ سعد رفیق نے یہ بات نواز شریف کے بھی گوش گزار کی ہے۔
گوجرانولہ سے اشرف انصاری بھی ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہیں۔ وہ آزاد حیثیت سے گوجرانولہ سے الیکشن لڑیں گے۔ دوسری جانب مولانا غیاث الدین بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر پارٹی نے ٹکٹ نہ دیا تو وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ اشرف انصاری اور مولانا غیاث الدین نے ن لیگ کے اندر فاروڈ بلاک بنایا لیکن جب حمزہ شہباز کو بطور وزیراعلی الیکشن لڑنا تھا تو ان دونوں نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا۔ اس وقت پارٹی نے بھی انہیں ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
دانیال عزیر اور زبیر عمر کی ناراضگی
نارووال سے تعلق رکھنے والے ن لیگی رہنما دانیال عزیر بھی پارٹی کی پالیسیوں کی وجہ سے ناراض ہیں۔ نارووال میں صوبائی نشست پر احسن اقبال اپنے بیٹے کو الیکشن لڑوانا چاہتے ہیں جبکہ دانیال عزیز اپنے قریبی دوست کو ٹکٹ دلوانے کے خواہاں ہیں۔ احسن اقبال پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں لہٰذا دانیال عزیر پارٹی کی 16 ماہ کے دور حکومت پر بھی تنقید کر رہے ہیں اور احسن اقبال کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پارٹی نے احسن اقبال کے بیٹے احمد اقبال کو ہی وہاں سے صوبائی سیٹ پر ٹکٹ دینے کا عندیہ دے دیا ہے۔ دوسری طرف زبیر عمر بھی پارٹی کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ناراض ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زبیر عمر مسلم لیگ ن سندھ کے صدر بننا چاہتے تھے لیکن ان کی جگہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو صدر بنا دیا گیا۔ بشیر میمن کو صدر بنوانے میں خواجہ سعد رفیق کا اہم کردار تھا۔
شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی تنقید
شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کافی عرصہ سے پارٹی سے ناراض ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کی پارٹی سے ناراضگی موررثی سیاست کی وجہ سے ہے۔ جس وقت مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنایا گیا تو شاہد خاقان عباسی نے انہیں قبول نہیں کیا اور وقتاً فوقتاً پارٹی کی کچھ پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہے۔ اسی طرح مفتاح اسماعیل نے اسحاق ڈار کی پالیسیوں پر تنقید کی تو انہیں بھی کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے کچھ رہنما چاہتے ہیں کہ مفتاح اسماعیل کو منایا جائے لیکن اسحاق ڈار اس پر راضی نہیں ہیں۔
تہمینہ دولتانہ اور مائزہ حمید گجر بھی نظر انداز
پارلیمانی بورڈ نے جب مخصوص نشستوں پر خواتین کے انٹرویوز کیے تو تہمینہ دولتانہ سے مریم نواز ان کی کارگردگی پوچھتی رہیں جس پر تہمینہ دولتانہ نے جواب دیا تھا کہ عمر کے اس حصے میں کیا میں مر جاؤں؟ تہمینہ دولتانہ پارٹی سے خائف ہیں کہ ان کی قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا، انہوں نے جس پارٹی کے لیے جیلیں کاٹیں، وہی پارٹی ان سے کارکردگی کا پوچھتی ہے۔
اسی طرح مخصوص نشستوں پر مائزہ حمید گجر کو نظر انداز کیا گیا۔ وہ ایک دفعہ مخصوص نشست پر ایم پی اے اور ایک دفعہ ایم این اے رہ چکی ہیں مگر اس مرتبہ پارٹی نے مخصوص نشستوں کی فہرست میں انہیں شامل نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مائزہ حمید گجر کے حوالے سے پارٹی کو کافی تحفظات تھے کہ مشکل وقت میں مائزہ حمید کہیں بھی نظر نہیں آئیں جس کی وجہ سے انہیں فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔