پاکستان کا قومی شناخت کا بحران

منگل 2 جنوری 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نوٹ: یہ تحریر پہلی مرتبہ ایک پرائیوٹ فیس بک گروپ ‘دی رائیٹرز کیفے’ میں 14 نومبر 2019 کو شئیر کی گئی تھی  جسے معمولی ترامیم کے ساتھ دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ 


کوئی 4 برس ادھر کی بات ہے۔ فیس بک پر برادرم ہارون ملک کے بنائے ہوئے گروپ ”دی رائیٹرز کیفے“ نے مقابلہ مضمون نویسی کے عنوان کا اعلان کیا۔ پابندی کے ساتھ کسی انعامی مقابلے کے لئے تحریر رقم کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن موضوع ایسا تھا کہ جس پر میں لکھنے کے لئے عرصے سے سوچ رہا تھا۔

میری دانست میں عنوان کی ساخت کے حوالے سے مسئلہ تھا۔ موضو ع تھا ”پاکستان کا قومی شناخت کا بحران“ ۔ اگر یہی موضو ع دوسری طرح لکھا جاتا تو زیادہ رواں ہوتا جیسے ”پاکستان کا قومی شناختی بحران“ یا ”پاکستان میں شناخت کا بحران“۔

بہر حال مضمون کا عنوان بہت اہمیت کا حامل تھا۔ پاکستان میں اگر قومی شناخت کا بحران حل ہو جائے تو شاید ہمارے لئے ایک قوم کی صورت اختیار کرنا ممکن ہو سکے۔

انتظامیہ نے مضمون لکھنے کیلئے جو بنیاد متعین کی ہے وہ کچھ یوں تھی، ”ہم سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان بھی ہیں لیکن ایک پاکستانی نہیں۔ ان  72 سالوں میں ہم سب مختلف قومیتوں اور اکائیوں میں بٹے رہے اور آج تک بٹے ہوئے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ایک قوم ‘پاکستانی’ نہیں بن سکے؟ کرکٹ اور جنگی ماحول یا سرحدوں پر کشیدگی تو ہمیں ایک کر دیتی ہے، جہاں سب سے پہلے پاکستان عملی طور پر نظر بھی آتا ہے، لیکن عام حالات میں ایسا نہیں ہو پاتا؟”

میری نظر میں ساری خرابی ہی اس نفسِ مضمون میں مضمر ہے جس کے مطابق ہم سب ذاتی، گروہی یا علاقائی شناختیں مٹا کر اور پسِ پشت ڈال کر محض ایک شناخت اپنانے پر زور دیتے ہیں اس بات پر زور دینا کہ ہم اپنی اپنی قدرتی شناختیں مٹا کر ایک ”پاکستانی قوم“ کی شناخت اپنا لیں یا اس میں ڈھل جائیں یہ پہلو اپنی روح میں ہی غیر فطری ہے۔

سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ شناخت دراصل ہے کیا؟ ”کسی فرد، افراد یا گردہ کو مخصوص، رنگ نسل، زبان، رہن سہن، نقش و نگار، قوم قبیلے، علاقے یا ملک سے پہچانے جانا اس کی شناخت کہلاتا ہے۔”

دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی شناخت کا حامل ہے لیکن اس کی بنیادی اور اولین شناخت انسان ہونا ہے۔ ہر انسان کی رنگ و نسل، زبان، نقش و نگار اور رہن سہن اسے مختلف شناخت دیتا ہے۔ یہ رنگا رنگی اور ہمہ جہتی دراصل انسانیت اور کائنات کا حسن ہے۔ اگر ہم انسان اسے باہمی تنازعات کی بنیاد بنا لیں تو یہی خوب صورتی اور ہمہ جہتی باہمی نفرت اور جنگ و جدل کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن انسان ہونا ہمیں باہم ایک اٹل رشتے ‘انسانیت’ میں پروتا ہے۔ البتہ ایسا ہونا تب ہی ممکن ہو پا تا ہے جب ہم ایک دوسرے کی ذاتی، گروہی یا علاقائی شناختوں کا احترام کریں۔ بعینہ یہی اصول ہر ملک پر لاگو ہو تا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں علاقائی شناخت کا وجود نہ ہو۔

کسی ملک میں سماجی انصاف کا وجود ایک دوسرے کی شناخت کا احترام اور حقوق کا خیال شہریوں کو ایک قوم بننے کی طرف راغب کر تا ہے۔ اور یو ں شہری اپنی ذاتی، گروہی، علاقائی، زبان اور رنگ ونسل کی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی ایک قوم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا ہونا ایک روز کا عمل نہیں بلکہ ایک تسلسل کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ جب کہ پاکستان کی ریاست اور اشرافیہ کا اصرار مسلسل اسی بات پر ہے۔ کہ اپنی شناخت سے لاتعلق ہو کر شہری محض ”پاکستانی“ بن جائے۔

مذکورہ بالا سوچ کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں تاریخی پس منظر کو سمجھنا ہو گا۔

تحریک پاکستان ایک سیاسی تحریک تھی نہ کہ مذہبی۔ قائداعظم اور اُن کے ساتھیوں کا مطمع نظر ایک ایسی ریاست تھی جہاں مسلمان اپنی زندگیا ں اپنی مرضی سے گزار سکیں اور ریاست اُن کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کر سکے۔ اس بات کا قطعی طور پر یہ مقصد نہیں تھا کہ پاکستان کوئی ایسی ریاست ہو گا جہاں دیگر مذاہب کے لوگ نہیں ہوں گے یا مذہبی حوالوں سے اُن پر کوئی پابندی ہو گی۔ اس حوالے سے قائداعظم کا 11اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب ایک واضح مثال ہے۔ اس خطاب میں انھوں نے کہا، “آپ کسی بھی ذات، مذہب یا فکر سے تعلق رکھتے ہوں، اس کا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول سے ابتداء کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اس نظر یے کو مقدم رکھنا چاہیے کہ وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ نہ مذہبی نقطہ نظر سے کیونکہ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے بلکہ سیاسی نقطہ نظر سے بھی سب ہی ریاست کے شہری ہیں۔‘‘ (پاکستان، ریاست اور اس کا بحران -صفحہ نمبر 238- ازحمزہ علوی)

اسی طرح مارچ 1949ء میں دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کو متعارف کراتے وقت وزیراعظم لیاقت علی خان نے کہا،”عوام ہی طاقت اور اقتدار کے حامل ہیں اور اس کا فطری نتیجہ یہی ہو گا کہ کسی بھی قسم کا مذہبی ریاست کا خطرہ ازخود تحلیل ہو کر رہ جائے گا“۔ (پاکستان، ریاست اور اس کا بحران- صفحہ 240- از حمزہ علوی)

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتیں جو قیام پاکستان کی شدید مخالف تھیں وہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اس کی ٹھیکیدار بن گئیں۔

مذہبی پیشواؤں نے اپریل 1940 میں جمعیت العلمائے ہند، مجلس احرار، شیعہ پولیٹیکل کانفرنس اور چار دوسری علاقائی پارٹیوں کے مشترکہ اہتمام کے تحت دہلی میں ایک آزاد مسلم کانفرنس منعقد کی۔ انہوں نے اپنی قرارداد میں پہلے تو جناح کے اس دعوے کو چیلنج کیا کہ مسلم لیگ مسلمانان ہند کی واحد بااختیار نمائندہ جماعت ہے اور پھر قرارداد لاہور کی مخالفت کرتے ہوئے یہ تفرقہ انگیز الزام عائد کیا کہ قرارداد لاہور میں مسلم لیگ نے صرف ”مسلم اکثریت کے علاقوں“ کے مفاد کو پیش نظر رکھا ہے اور ہندو اکثریت والے صوبوں میں بسنے والے مسلمانوں کے مفاد اور مستقبل کو توجہ کا مستحق نہیں سمجھا۔ (پاکستان کی سیاسی تاریخ- جلد 8، صفحہ 323- از زاھد چودھری)

مولانا مودودی نے تو بہت شد و مدّ سے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور اپنا نقطہ نظر صراحت سے بیان کیا۔
“افسوس کہ لیگ کے قائداعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز تک رکھتا ہو ۔ ایسے لوگوں کو محض اس لیے مسلمانوں کی قیادت کا اہل قرار دینا کہ وہ مغربی سیاست کے ماہر یا مغربی طرز تنظیم کے استا دِ فن ہیں اور اپنی قوم کے عشق میں ڈوبے ہوئے ہیں سراسر اسلام سے جہالت اور غیر اسلامی ذہنیت ہے ۔ ان لوگوں کی عملی زندگی اور ان کے خیالات، نظریا ت، طرز ِسیاست اور رنگ ِقیادت میں خوردبین لگا کر بھی اسلامیت کی کوئی چھینٹ نہیں دیکھی جا سکتی۔ ان میں سے اکثر کے گھروں میں آپ جائیے تو آپ کو نمازکے وقت کوئی بتانے والا نہ ملے گا کہ سمت کعبہ کدھر ہے اور اسباب عیش وعشرت سے بھری ہوئی کوٹھیوں میں سے ایک جانماز بھی فراہم نہ ہو سکے گی۔” (پاکستان کی سیاسی تاریخ- صفحہ 330، جلد 31- از زاہد چوہدری)

مطالبہ پاکستان کے خلاف مولانا مودودی کی بہت سی تحاریر ہیں۔ یہاں نمونے کے طور پر ایک اقتباس دیا ہے۔ مولانا مودودی، حسین احمد مدنی، عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا ابو الکلام آزاد، شورش کاشمیری سمیت دیگر کئی جیّد حضرات نے قیام پاکستان کی مخالفت کی۔ اس کا مطلب یہ نہیں پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنے والے شب و ستم کا نشانہ بنیں اور نہ اُن کی نیتوں پر شک کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی فہم و فراست کے مطابق جو وہ درست سمجھتے تھے اُس کا اظہار کیا۔ غالباََ وہ اصحاب سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے بٹوارے سے مسلمانوں کی قوت تقسیم ہو جائے گی۔

مذہبی طبقات کے علاوہ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی اقتدار میں تھی۔ شمال مغربی سرحدی صوبے میں خان عبدالغفار خان اور ان کی پارٹی کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ یہ سب لوگ قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ گانگریس کی مخالفت اور انگریز سرکار کا پاکستان کے حوالے سے ناموافق رویہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے۔ ان سب حالات کے باوجود پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا قائد اعظم اور ان کے رفقاء کی بہت بڑی کامیابی تھا۔ یہ سب کچھ برصغیر کے مسلمانوں کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں مل گیا تھا۔ بلکہ شمال مغربی صوبہ سرحد میں ریفرنڈم ہوا۔ بنگال، پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں میں پاکستان کے حق میں قرراردادیں پاس ہوئیں جب کہ بلوچستان کے شاہی جر گے اور کوئٹہ میونسپلٹی کے ارکان نے متفقہ طور پر پاکستان میں شامل ہونے کے حق میں فیصلہ کیا (پاکستان کیسے بنا۔ از زاہد چوہدری۔ صفحہ 535-536)

قیام پاکستان کے پس منظر کا سرسری جائزہ لینے کا مقصد یہ تھا کہ وہ حالات مد نظر رہیں جن میں پاکستان بنا۔ پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو ہندوستان کے مقابلے میں ہمہ جہت اور مشکل مراحل کا سامنا تھا جن میں اثاثہ جات کی غیر منصفانہ تقسیم، کشمیر کے مسئلے سمیت بہت سے داخلی اور خارجی مسائل درپیش تھے۔

پاکستان بننے کے بعد ریاست کو جس مسئلے کا شدت سے سامنا کرنا پڑا وہ زبان کا معاملہ تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگ اپنی زبان سے بے پناہ پیار کرتے تھے اور وہ کسی صورت بھی اس حوالے سے سمجھوتے کے لئے تیار نہیں تھے۔ یہ ان کی ہٹ دھرمی نہیں تھی بلکہ اصولی مؤقف تھا جس کو ریاست نے بالکل اہمیت نہ دی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسائل میں سے مناسب حصہ نہ دینے کا گلہ شروع ہوا اور شدید عوامی مزاحمت کے نتیجے میں ملک بالآخر دولخت ہوگیا۔ ہم نے عوامی امنگوں کو مذہب اور ملکی یک جہتی کے نام پر دبانے کی کوشش کی مگر ٹھوس اقدامات کے بغیر ایسی کاوشیں محض خالی خولی نعروں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ مسلمانوں کے نام پر علاحدہ ملک وجود میں آنے کے بعد وہاں کے رہنے والوں کو سماجی انصاف، آگے بڑھنے کی امنگ، باہمی شناخت اور عزت میسر ہوتی۔ عوام کو ریاستی اختیارات اور سیاست میں شراکت داری کا موقع ملتا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف قومیتوں میں عدم تحفظ اور عدم مساوات کا احساس بڑھتا رہا۔ پاکستان کے ایک نامور سماجی دانش اور حمزہ علوی نے شناخت کے اس مسئلے کو بہت درست انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، “پاکستان کی ریاست ایک ایسا ملک ہے جو کہ اب بھی اپنی شناخت کی تلاش میں ہے۔ اس کی وجہ نہیں ہے کہ قومیت‏(nationahood)  کے تصور نے ہمارے دماغوں میں جگہ نہیں بنائی، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے خائف‏ (obsessed) ہیں۔ اس مسئلے پر بہت زیادہ لہو بہہ چکا ہے۔ اس سلسلے کے سیاسی مباحث اور متضاد پہلواس سوال کے گرد گردش کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان وسیع تر قومی تناظر میں ذیلی قومیتوں‏ (sub-national) کی خواہشات اور مطالبات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر اس دہری شناخت کے مسئلے پر کافی تناؤ اور جدلیاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ جس کو کبھی حل نہیں کیا گیا، وہ لوگ جو صاحب اقتدار ہیں وہ ذیلی قومیتی تحریکوں کو، قوم (‏The Nation) کے خلاف خطرہ (Threat) سمجھتے ہوئے اسے قومی اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش تصور کرتے ہیں۔“ (پاکستانی اشرافیہ از حمزہ علوی۔ صفحہ 9)

”بنگالیوں کی اصل بے چینی کی وجوہات کو سمجھنے کے بجائے یہ دلائل دیے گئے کہ ہم سب مسلمان اور پاکستانی ہیں اس لیے ہم بنگالی، سندھی بلوچ یا پٹھان نہیں ہو سکتے۔ (تشکیل پاکستان -از حمزہ علوی -صفحہ- 35)

پاکستانی ریاست کا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں بالا دست طبقے نے نہ تو جمہوریت کو پنپنے دیا اور نہ ہی عوامی امنگوں کا خیال رکھا اگر کسی فرد، گروہ یا قوم کے کسی حصے نے، زبان، ثقافت یا شناخت کا مطالبہ کیا تو اُس پر غداری، ملک دشمنی اور علاقائی عصیبت کا الزام لگا دیا گیا۔

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب سیاسی عناصر ملکی سطح پر اپنا کوئی کردار نہیں دیکھتے تو وہ علاقائی سیاست میں کود پڑتے ہیں۔ علاقائی اور لسانی سیاست کا حمزہ علوی نے بہت اچھا تجزیہ کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے، “علاقائی خود مختاری ‏(autonomy) کے حصول کے لیے ذیلی تحریکوں کے دوران لالچی ‏(ambitious) سیاست دان بھی لسانی بنیادوں پر ہونے والے اس سیاسی کھیل میں کود پڑتے ہیں۔ خاص طور پر جب انہیں لگتا ہو کہ وہ مرکزی اور قومی سطح پر کوئی قوت حاصل نہیں کر سکتے تو پھر وہ علاقائی اور صوبائی سطح پر ہی قوت حاصل کرنے کے خواہش مند ہو جاتے ہیں اور اس متبادل راستے سے ہی فائدے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اب ان کا نعرہ زیادہ صوبائی خود مختاری ہو تا ہے کیونکہ اس کے ذریعے ان کے مفادات زیادہ بہتر طریقے سے پورے کیے جاسکتے ہیں اور وسائل پر ان کا کنٹرول زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ وہ بعض اوقات اس مقصد کے حصول کے لیے فاشسٹ طریقوں پر بھی اتر آتے ہیں۔ جب ان کے پاس عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کوئی ٹھوس عمل نہ ہو۔ جبکہ دوسری طرف ان غالب لسانی گروہ کی (جو کہ نوکر شاہی اور فوج میں واضح اکثریت رکھتے ہیں) سیاست کی منطق کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے جس کی بنیاد پر وہ لسانی بنیادوں پر چلائی جانے والی تحریکوں کی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ لسانی تحریکیں کامیاب ہو گئیں تو پھران لسانی گروہوں کو بھی اقتدار میں شریک کرنا پڑ جائے گا جس کے باعث انہیں اپنے تن تنہا حق حکمرانی سے محروم ہونا پڑے گا۔ جس کے باعث یہ لسانی گروہوں کے وجود سے انکاری ہوتے ہوئے وسیع شناخت سے وابستگی کی دعوت دیتے ہوئے پاکستانی قوم یا پھر اسلامی اخوت وبھائی چارہ کا درس دینا شروع کر دیتے ہیں۔ درحقیقت اس طریقے سے وہ لسانی بنیادوں پر حقوق کے حصول کے لیے شروع کی جانے والی تحریکوں کو غیر قانونی ‏(delegitimise) کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ وہ سرکاری قومیت پرستی کے تصور کو نافذ ‏(invoke) کرنا چاہتے ہیں۔” (پاکستانی اشرافیہ۔ از حمزہ علوی۔ صفحہ 17-18)

پاکستان نے اپنی حالیہ تاریخ میں دہشت گردی اور قبل ازیں فرقہ واریت کا بہت گھناؤنا دور دیکھا ہے لیکن ریاست کو شناخت کے بحران کا مسلسل اور تہہ در تہہ چیلنج کا سامنا ہے۔ جو بظاہر اور وقتی طور پر دب جاتا ہے مگر وہ کسی نہ کسی شکل میں ابھرتا رہتا ہے۔

اس وقت صور ت حال بہت گھمبیر ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا اعتماد بھی پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ڈانواں ڈول ہے۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہر صاحبِ اختیار اور صاحب ِثروت، اپنے اور اپنے خاندان کے لیے غیر ملکی شہریت کو ضمانت اور ایک آپشن کے طور پر محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی بطور پاکستانی کے شناخت سے مطمئن نہیں۔

بے یقینی اور عدم اعتماد نے پوری پاکستانی قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سماجی انصاف،یکساں ترقی اور باہمی طور پر ایک دوسرے کی شناخت کا احترام ہمیں قومی ترقی کے لئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

کراچی، حیدرآبادمیں اردو زبان بولنے والے اپنی شناخت بطور مہاجر چاہتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے لوگ بطور سرائیکی اپنی شناخت پر مُصر ہیں۔ بلوچستان میں پشتون، بلوچ سیاست کے اپنے مسائل ہیں۔ صوبہ خیبر خیبر پختون خواہ میں ہزارہ ڈویژن کی عوام اپنی علا حدہ شناخت پر مصر ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ اپنی شناخت کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ آزاد کشمیر اکے عوام اپنی قومی شناخت کے حوالے سے تذبذب کی کیفیت سے دوچا ر ہیں۔

صرف مذہبی نعروں اور حب الوطنی کی بنیاد پر کوئی ریاست زیادہ دیر تک اپنے شہریوں کو مطمئن نہیں رکھ سکتی۔ عام شہری سمجھتے ہیں کہ بالادست طبقات اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایسے نعرے بلند کرتے ہیں اور ایسے نعروں کی گونج تلے لوگوں اور عوام کے حقوق کو سلب کرنے کا جتن کیا جا تاہے۔ایسا کرنے سے وقتی طورپر تو لوگوں کے جذبات کے سامنے بند باندھا جا سکتا ہے مگر ایسے اقدامات ہمیشہ وقتی،ناپائیدار اور عارضی ثابت ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں ہمیں اس تلخ حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے۔ ہم اگر حقائق سے آنکھیں چراتے رہیں تو یہ مسئلے کا حل نہیں۔ایک طرف تو پاکستانی ریاست کو اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر مستقل چیلنج کی صورت حال کا سامنا ہے تو دوسری طرف ملک کا سماجی اور ریاستی ڈھانچہ ڈ انوں ڈول ہے۔ ملکی سطح پر ایسے حوصلہ افزاء امکانات بہت محدود یا نہ ہونے کے برابر ہیں جن کو لے کر عوام ایک قومی لڑی اور شناخت میں پروئی جائے ۔ لہذا وہ ایک طرف تو علاقائی، لسانی اور مذہبی شناخت میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔دوسری طرف ریاست اُن کے اُس فطری حق کو کُھلے دل سے تسلیم نہیں کرتی تو اُن میں احساس محرومی فزوں تر ہوتا ہے۔

جب یہ کہا جاتا ہے”ہم سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان تو ہیں لیکن پاکستانی نہیں“ تو ایسی صورت میں یہ تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے کہ ہم اپنی ذاتی اور علاقائی شناخت، زبان، ثقافت اور رہن سہن کے ساتھ پاکستانی بھی ہیں تو کیا یہ زیادہ، خوب صورتی نہیں؟ ہم شیعہ، سنی اور وہابی نہیں بلکہ صرف مسلمان ہیں۔ اس بات پر زور دینے کے بجائے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ہمارا فرقہ جو بھی ہے لیکن ہم مسلمان ہیں۔ تو اسی طرح مذہبی ہم آہنگی اور برداشت بڑھے گی۔ ایک دوسرے کی شناخت کو تسلیم کرنے میں قباحت او ر ہرج کیا ہے؟ کیا ایسا کرنا کوئی دنیا کا انوکھا اقدام ہو گا؟ ہر گز نہیں بلکہ ایسا کرنے سے ہماری شناخت زیادہ پائیدار ہو گی۔

ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں قومی ہیں۔ ہاں سرکاری زبان بے شک اردو کو ہی رکھیں۔ مگر اپنی مادری زبانیں ترک کرنے کا خیال منصفانہ اور مناسب نہیں۔اسی طرح یہ بھی تسلیم کرنا ہو گاکہ تمام ثقافتیں اور شناختیں قومی ہیں۔ملک کی تمام قومیتوں کو احترام دے کر ہم زیادہ بہتر انداز میں بطور قوم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جتنی جلدی ہم حقائق کا سامنا کرنا شروع کر دیں گے مسائل کا بہتر ادارک کرپائیں گے۔

جب تک ہم کسی مسئلے کو مسئلہ تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم اُس کے حل کی طرف پیش قدمی کر ہی نہیں پائیں گے۔
ہمیں اپنی قومی سوچ کا ازسر ِ نو جائزہ لینا ہو گا اور تمام طبقات کو اُن کا جائز حق دینا ہوگا۔ سماجی انصاف، وسائل کی منصفانہ تقسیم، باہمی احترام اور شناخت کا حق دیے بغیر ہم ایک قوم نہیں بن سکتے۔ یہ محض نعرہ نہیں بلکہ نوشتہ ِ دیوار ہے۔

 

تحریر میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا: “پاکستان کیسے بنا” از زاہد چوہدری (جلد 1,2,3,7)، “پاکستان۔ ریاست اور اس کا بحران ” از حمزہ علوی، “پاکستانی اشرافیہ” از حمزہ علوی، “علما ء اور سیاست” از ڈاکٹر مبارک علی، “محاصرے کا روز نامچہ” از وجاہت مسعود، “تشکیل پاکستان ” از حمزہ علوی، “شناخت کا بحران” از احمد اعجاز، “میڈیا منڈی” از اکمل شہزاد گھمن

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp