ترکیہ اور شام میں خوفناک زلزلے کے ایک مہینے بعد بھی شہری خوف کے عالم میں سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں لیکن اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر چھوڑ کر محفوظ جگہ پر جانے کو تیار نہیں۔
تباہ کن زلزلے میں زندہ بچ جانے والے شہری غیر یقینی کا شکار ہیں۔ ان کے سب سے سنگین مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے پاس رہنے کے لیے محفوظ جگہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق کم از کم 15 لاکھ لوگ اب بھی بے گھر ہیں، اور یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں مناسب پناہ گاہ ملنے میں کتنا وقت لگے گا۔
ترکیہ کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی ’ افاد ‘ کے مطابق اب تک تقریباً 20 لاکھ افراد زلزلے کے علاقے سے نکل چکے ہیں اور دوستوں یا عزیزوں کے ساتھ محفوظ جگہوں پر رہ رہے ہیں۔ جو شہری محفوظ مقام پر جانا چاہتے ہیں ، ترک حکومت نے ان کے لیے ہوائی جہاز اور ٹرین کا سفر مفت کردیا ہے۔
دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے گھر چھوڑنا نہیں چاہتے اگرچہ وہ زلزلے سے تباہ ہوچکے ہیں ۔ بحیرہ روم کے ساحلی قصبہ ’ سمندگ ‘ میں رہنے والی خاتون سونگول کا کہنا ہے کہ وہ اور اس کا خاندان کہیں نہیں جا رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں ” یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے ، آگے کچھ بھی ہو ، چاہے گھر گر جائے ، ہم یہیں رہیں گے۔ یہ ہمارا گھر ہے، ہمارا گھونسلہ ہے۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے ، وہ یہیں ہے۔ ہم چھوڑنے والے نہیں ہیں۔”
اس وقت سانگول کا پورا خاندان اپنے تباہ شدہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تین خیموں میں رہ رہا ہے۔ خاندان کے افراد انہی خیموں میں سوتے ہیں ، کھانا بھی ایک چھوٹے سے چولہے پر بناتے ہیں۔
اس خاندان کی مشکل یہ ہے کہ انھیں کوئی مناسب بیت الخلا میسر نہیں ہے۔ لکڑی سے بنے ایک عارضی شیڈ میں بیت الخلاء بنا ہوا ہے۔ بیت الخلاء میں ایک چھوٹا سا شاور بھی ہے لیکن خطرے کی بات یہ ہے کہ اس بیت الخلاء کی کوئی پرائیویسی نہیں ہے۔ جن خیموں میں خاندان کے افراد رہتے ہیں وہ بھی بہت چھوٹے ہیں۔
سونگول کے لیے یہ ایک اذیت ناک مہینہ رہا ہے ۔ زلزلے میں ان کے سترہ رشتہ دار ہلاک ہو گئے ۔
سونگول کا کہنا ہے کہ ’’ اس کی بہن ٹولے ابھی تک لاپتہ ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اب بھی ملبے کے نیچے ہے، یہ بھی علم نہیں ہے کہ اس کی لاش کو ابھی تک نکالا گیا ہے یا نہیں۔ ہم انتظار کر رہے ہیں۔ ہم سوگ منانا شروع نہیں کر سکتے‘‘۔
ترکیہ میں زلزلے کے بعد محفوظ جگہ کی کمی ہے۔ زلزلے سے 160,000 سے زیادہ عمارتیں منہدم ہوئیں یا بری طرح ٹوٹ پھوٹ گئیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق کم از کم 15 لاکھ لوگ اب بھی زلزلے کے علاقے میں موجود ہیں۔ حقیقی اعداد و شمار کے بارے میں جاننا مشکل ہے، یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے ۔