’انوارالحق کاکڑ کا بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف بیان مزید بے چینی پیدا کرے گا‘

منگل 2 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام اپنے مطالبات کے حق میں اسلام آباد پریس کلب کے باہر دھرنا جاری ہے۔

نگراں وزیراعظم کا بلوچ یکجہتی کمیٹی سے متعلق بیان

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ لاپتا افراد کے لواحقین کا احتجاج تسلیم کرتے ہیں مگر دہشتگردی تسلیم نہیں، احتجاج کا سب کو حق ہے مگر احتجاج آئین کے دائرہ کار میں رہ کر کرنا چاہیے۔

انوارالحق کاکڑ نے کہاتھا کہ احتجاج کی آڑ میں دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے والوں کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ جن لوگوں نے حمایت کرنی ہے وہ ان مسلح تنظیموں کا کیمپ جوائن کریں۔

انہوں نے کہاکہ اپنے پیاروں کے لیے احتجاج کرنے والوں کو حق ہے مگر باقی صرف تنقید کر رہے ہیں۔

انوارالحق کاکڑ کے بیان کے بعد نئی بحث کا آغاز

نگران وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا۔ صارفین کا موقف ہے کہ ایسے بیانات سے بلوچ عوام کے جذبات کو مزید ٹھیس پہنچے گی اور بے چینی پیدا ہوگی۔

انوارالحق کاکڑ کے بیانات ماضی سے مختلف نہیں، شاہد رند

بلوچستان کے سینیئر صحافی اور اینکر پرسن شاہد رند نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان کی صورتحال کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ یہاں قوم پرست اور مخالف قوم پرست دو نظریات ہیں۔

انہوں نے کہاکہ یہاں قوم پرست مخالف بیانیے نے 2006 کے بعد جنم لیا اور اس بیانیے کو سپورٹ کرنے والوں میں سرفراز بگٹی اور انوارالحق کاکڑ جیسے کئی سیاستدان تھے۔

شاہد رند نے کہاکہ انوارالحق کاکڑ کے حالیہ بیانات ماضی سے مختلف نہیں اور ایسے بیانات کے اثرات بھی ماضی سے مختلف نہیں ہوں گے۔

’ایک فریق قوم پرست اور ایک مخالف بیانیہ رکھتا ہے، ان میں کون درست اور کون غلط ہے اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی‘۔

نگراں وزیراعظم کو جارحانہ انداز نہیں اپنانا چاہیے تھا، سید علی شاہ

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے صوبے کے ایک اور سینیئر صحافی سید علی شاہ نے کہاکہ نگراں وزیر اعظم کو اس طرح جارحانہ انداز نہیں اپنانا چاہیے تھا، کوئی بھی شخص کسی جرم میں ملوث ہو تو اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، لاپتا کرنا کسی قانون میں شامل نہیں۔

سید علی شاہ نے مزید کہاکہ وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے یہ کہنا کہ صحافیوں کو تحقیقاتی صحافت کرنی چاہیے تو انہیں یہ بات کہنے سے قبل یہ بھی سوچنا چاہیے کہ صوبے میں آزادانہ صحافت کرنا کتنا ممکن ہے۔

بلوچ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کی ضرورت ہے

انہوں نے کہاکہ بلوچ عوام کو دست شفقت کی ضرورت ہے جس سے ان کے دکھوں کا مداوا ہو سکے، ایسا بیانیہ تو صوبائی وزیر نہیں اپناتے جیسا ملک کے نگراں وزیراعظم نے اپنایا ہے۔

سید علی شاہ نے کہاکہ بلوچستان کے مسائل کو طاقت کے استعمال سے حل نہیں کیا جاسکتا، ایسا کرنے سے مسائل مزید پیچیدہ ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp