لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا معاملہ: آئی جی، چیف سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری

بدھ 3 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 پاکستان تحریک انصاف کو عام انتخابات میں مبینہ طور پر لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے آئی جی، چیف سیکریٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری (پیر) تک ملتوی کردی ہے۔

پی ٹی آئی کو لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ پی ٹی آئی وکلا نے آج اس حوالے سے اضافی دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھیں۔

ان دستاویزات کے ذریعے پی ٹی آئی نے اپنے 668 رہنماؤں کے کاغذات مسترد ہونے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا ہے۔ دستاویزات کے ذریعے بتایا گیا کہ پی ٹی آئی کے 2 ہزار کے قریب حمایت یافتہ اور سیکنڈ فیز کے رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے جبکہ کاغذات  نامزدگی چھینے جانے کے 56 واقعات پیش آئے۔

مزید پڑھیں

وکلا نے عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں بتایا کہ پی ٹی آئی کے تجویز کنندگان اور تائید کنندگان کی گرفتاریاں کی گئی، پی ٹی آئی ویڈیو ثبوت بھی سپریم کورٹ میں دوران سماعت پیش کرے گی۔  26 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی نے لیول پلیئنگ فیلڈ کے احکامات پرعملدرآمد نہ ہونے پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے یکم جنوری کو درخواست سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

سماعت کا آغاز

سماعت کے آغاز پر وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شعیب شاہین کو روسٹرم پر آنے کا کہا اور ان سے مخاطب ہوئے کہ یہ آپ کی درخواست تھی، آپ نے درخواست دائر کی، آپ ہی دلائل دیں۔

شعیب شاہین نے چیف جسٹس سے مخاطب ہوکر کہا، ’لطیف کھوسہ سینئر وکیل ہیں، میں نے ان سے دلائل کی درخواست کی ہے، میں لطیف کھوسہ کے ساتھ کھڑا ہوں۔

لطیف کھوسہ کے نام کیساتھ سردار لکھے جانے پر اظہار برہمی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے لطیف کھوسہ کے نام کیساتھ سردار لکھنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا، ’یہ سردار،نواب اور پیر جیسے الفاظ اب لکھنا بند کر دیں، 1976 کے بعد سے سرداری نظام ختم ہوچکا ہے، یا تو پاکستان کا آئین چلائیں یا پھر سرداری نظام، آئین پاکستان کیساتھ اب مذاق کرنا بند کر دیں۔‘

لطیف کھوسہ نے کہا، ’میرے شناختی کارڈ پر سردار لکھا اس لیے عدالت میں بھی سردار لکھا گیا‘، جس پر چیف جسٹس بولے، ’سردار اور نوابوں کو چھوڑ دیں، اب غلامی سے نکل آئیں، سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔‘

کس نے کیا توہین کی؟ عدالت کا لطیف کھوسہ سے سوال

اس موقع پر جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ توہین عدالت کا کیس ہے، یہ کوئی نئی پیٹیشن نہیں ہے، آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے جو توہین کی اس کے متعلق بتائیں، الیکشن کمیشن نے آپ کو آرڈر کیا دیا؟

وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا، ’ہمیں الیکشن کمیشن نے کچھ آرڈر نہیں دیا‘۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا، آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے۔

چیف جسٹس نے بھی لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ آپ ہمیں بتائیں آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں، اب آپ تقریر نہ شروع کر دیجیے گا، آئینی اور قانونی بات بتائیں، ہر کوئی یہاں آ کر سیاسی بیان شروع کر دیتا ہے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے۔

لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی جس پر چیف جسٹس نے پوچھا ثبوت کیا ہیں ہمیں کچھ دکھائیں۔ لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ساری تفصیل درخواست میں لگائی ہے۔

آر او آرڈرز کی نقل تک نہیں مل رہی، لطیف کھوسہ

چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ کہ آپ انفرادی طور پر لوگوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں تو الگ درخواست دائر کریں، کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ہیں تو اپیل دائر کریں۔

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اپیل کرنے کے لیے آراو آرڈرز کی نقل تک نہیں مل رہی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آپ کے کتنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، آپ نے لکھا سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے لیا۔

جس کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے، وہ اپیل کرے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا بات ختم۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ انہیں 3 دن تک آرڈر کی کاپی نہیں ملی، اپیل کہاں کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ آپ نے لوگوں کے نام کی جگہ میجر فیملی لکھا ہوا ہے۔

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ میجر طاہر صادق کا ذکر ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کا کام کریں، آپ کا ہر دوسرا بیان سیاسی ہے، انتخابی پروگرام آچکا ہے، کچھ لوگ خوش ہیں کچھ نہیں، آپ اتنے بے یار و مددگار نہ ہوں، جائیں جا کر ٹربیونلز میں اپیلیں دائر کریں، کوئی ڈیفالٹر ہو سکتا ہے، ہو سکتا کسی کے کاغذات غلط مسترد ہوئے ہوں گے، کاغذات نامزدگی سے متعلق ہر کیس انفرادی ہے، الگ الگ دیکھنا ہو گا۔

آئی جی، چیف سیکریٹریز کا اس کیس سے کیا تعلق، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جیز اور چیف سیکریٹری کا الیکشن سے کیا لینا دینا، کیا سپریم کورٹ یا آئی جی الیکشن کروا رہے ہیں، سمجھ نہیں آ رہا کہ ہر دن لوگ درخواست لے کر آجاتے ہیں، ہم آرڈر کیا کریں، ہر کیس الگ ہے اور میرٹ پر سنا جائے گا، آراو کے فیصلے کی کاپی نہیں ملتی تو کاپی کے بغیر ٹربیونل میں درخواست دیں، ہم کیسے دوسرے فریق کو سنیں بغیر آپ کی اپیل منظور کر لیں، ہم کیسے کہہ دیں کہ فلاں پارٹی کے کاغذات منظور کریں اور فلاں کے مسترد، آپ بتائیں ہم کیا آڈر پاس کریں، عدالتیں الیکشن کے لیے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑیں ہیں، آپ ٹربیونل میں اپیلیں دائر کریں، اس کے بعد ہمارے پاس آئیں تو سن لیں گے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن حکام سے سوال کیا کہ ٹریبونل میں اپیل دائر کرنے کا وقت کب تک ہے؟ ڈی جی لا الیکشن کمیشن روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ آج آخری دن ہے۔ چیف جسٹس لطیف کھوسہ سے مخاطب ہوئے، ’کھوسہ صاحب ٹریبونل جائیں پھر، یہاں کیا کر رہیں ہیں۔

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی شکایت پر الیکشن کمیشن نے تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایات دیں، سارے آئی جیز کا اس لیے اس کیس کیس سے تعلق ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کی شکایات کی کاپی کہاں ہے۔ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ انہوں نے شکایات کی کاپی ساتھ نہیں لگائی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’پھر الیکشن گزر جائیں گے تو کاپی لگا لیجیے گا۔‘

ہم روز آپ کے لیے نہیں بیٹھ سکتے، چیف جسٹس

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ہماری شکایت پر صرف صوبوں کو ایک خط لکھا، کیا الیکشن کمیشن صرف ایک خط لکھ کر ذمہ داریوں سے مبرا ہو گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’آپ توہین عدالت کے سکوپ تک رہیں، یہ بتائیں ہمارے 22 دسمبر کے حکمنامہ پر کہاں عملدرآمد نہیں ہوا، الیکشن کمیشن نے تو 26 دسمبر کو عملدرامد رپورٹ ہمیں بھیج دی۔

لطیف کھوسہ نے عدالت سے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم روز آپ کے لیے نہیں بیٹھ سکتے، آپ کو عملدرآمد رپورٹ مل گئی اس پر جواب دے دیں۔

26 دسمبر کے بعد کیا ہوا، چیف جسٹس کا استفسار

لطیف کھوسہ نے کہا، ’میں آپ کا زیادہ وقت ضائع نہیں کروں گا‘، چیف جسٹس بولے، ’آپ وقت ضائع کریں، ہم رات تک بیٹھیں ہیں، الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کو آپ کے تحفظات دور کرنے کا آڈر جاری کیا، 26 دسمبر کے بعد کہاں کیا ہوا وہ بتائیں۔‘

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا میں سب کچھ آچکا ہے، دنیا نے سب کچھ دیکھا۔ چیف جسٹس بولے، ’میں تو میڈیا دیکھتا ہی نہیں‘۔

لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف کاسمیٹک عملدرآمد نہیں بلکہ آپ بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، آپ نے شفاف الیکشن یقینی بنانے ہیں۔

یہ عدالت ہے، اکھاڑا نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت ہے، اکھاڑا نہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا آپ صوبائی الیکشن کمیشن کا خط بھی تو دیکھیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے خط 24 دسمبرکو لکھا جبکہ الیکشن کمیشن نے عملدرآمد رپورٹ 26 کوجمع کرائی، الیکشن کمیشن نے 26 دسمبرکے بعد کچھ کیا ہوتو بتائیں۔

لطیف کھوسہ نے عدالت سے ویڈیو لگانے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا نے میڈیا پردیکھا جوپی ٹی آئی کیساتھ ہوا، الیکشن کمیشن نے عملدرآمد رپورٹ میں وہی خط لگائے جو ہماری درخواست میں بھی ہیں۔

آپ کی درخواست میں کوئی مخصوص الزام نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں  کوٸی بھی ایک مخصوص الزام نہیں لگایا، آپ لکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن پابند ہے صاف و شفاف الیکشن کا، ہم کہتے ہیں ہاں، آپ نے 2013ء کے الیکشن میں بھی الزامات لگائے، عدالت نے تب بھی وقت ضاٸع کیا، کوٸی ٹھوس الزام نا نکلا۔

35 پنکچر والی بات اسی عدالت میں ہوئی، لطیف کھوسہ

لطیف کھوسہ نے یاد دہانی کراتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 35 پنکچر والی بات اسی عدالت میں ہوٸی تھی، عدالت نے کہا تھا کہ آرگناٸزڈ دھاندلی نہیں ہوٸی، اس معاملے کا آج کے حالات سے کوٸی موازنہ نہیں۔

موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو آپ ہی نے لگایا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر آپ نے ہی تعینات کیا تھا ہم نے نہیں، مسٸلہ یہ ہے کہ کوٸی بھی اپنی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ہمارا 22 دسمبر سے سخت  کوٸی اورآرڈر نہیں ہوسکتا، آپ نے اسکے بعد الیکشن کمیشن کو کوٸی شکایت کی ہو تو بتا دیں۔

کیا الیکشن کمیشن لیول پلیئنگ فیلڈ دے رہا ہے، جسٹس مظہر

اس موقع پر جسٹس میاں محمد علی مظہر نے الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ کیا آپ انھیں لیول پلینگ فلیڈ دے رہے ہیں، جس پر ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ہر شکایات کو ہم نے متعلقہ اتھارٹی کو بھیجا جہاں قانون کے مطابق اس پر فیصلے ہوئے۔

لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ تاریخ کی بدترین پری پول دھاندلی ہو رہی ہے، آر اوز دفتر کے باہر سے لوگوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے، اس معاملے پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتی، میرے اپنے بیٹے کو گرفتار کیا۔

کیا مسئلہ صرف پنجاب کا ہے، عدالت کا سوال

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کا بنیادی الزام کس پر ہے، صرف پنجاب کا مسئلہ ہے، کیا پنجاب کا ایڈووکیٹ جنرل موجود ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت میں موجود نہیں۔ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ آپ نے آئی جی کے خلاف الیکشن کمیشن کو کارروائی کے لیے لکھا؟

آئی جی، چیف سیکریٹری، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے نہیں ان کے اپنے صوبائی الیکشن کمیشن نے خط لکھا کہ عمل نہیں ہو رہا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا اپنا صوبائی الیکشن کمیشن لکھ رہا ہے، اس پر آپ کو ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا۔

بعد ازاں، عدالت نے پنجاب کے آئی جی، چیف سیکرٹری اور ایڈوکیٹ جنرل کو طلبی کے نوٹسز جاری تے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری بروز پیر تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp