پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انتخابی نشان بلے کی بحالی کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بلا واپس لے لیا۔ پی ٹی آئی نے بلے کے انتخابی نشان کے لیے کل ہی سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی کہ بلے کا نشان واپس ہونے کے فیصلے سے پی ٹی آئی کو کیا نقصان ہوا ہے؟۔
مزید پڑھیں
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا تو پی ٹی آئی امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے، سب کے انتخابی نشان مختلف ہوں گے، پارٹی کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی اور سینیٹ انتخابات سے بھی پی ٹی آئی آؤٹ ہو جائے گی۔
اب پی ٹی آئی ایک قومی جماعت نہیں رہی ، کنور دلشاد
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان بلا واپس لینے کے فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ بحال ہونے سے پی ٹی آئی کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے، اب پی ٹی آئی ایک قومی جماعت نہیں رہی، پی ٹی آئی امیدوار آئندہ انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیں گے اور انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی نشان دیا جائے گا۔
خواتین کی مخصوص نشستوں سے محرومی
پی ٹی آئی کو ایک اور بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ عام انتخابات کے بعد وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مجموعی طور پر 200 نشستیں ہوتی ہیں، اب پی ٹی آئی کو ایک بھی نشست نہیں مل سکے گی۔
سینیٹ کے انتخابات سے محرومی
کنور دلشاد نے کہا کہ رواں سال مارچ میں سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخابات ہونا ہیں اور اس میں انتخابات آزاد امیدوار حصہ نہیں لے سکتے صرف سیاسی جماعتوں کو نشستیں دی جاتی ہیں، اگر پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا جاتا ہے تو پی ٹی آئی سینیٹ انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکے گی۔
تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں ایک پارٹی کی حیثیت کھو چکی
اس کے علاوہ آج کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں ایک پارٹی کی حیثیت کھو چکی ہے، اب پی ٹی آئی ایک عام پارٹی ہے اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔
ووٹر کی ترجیحات
کنور دلشاد نے کہا کہ عام انتخابات میں ووٹرز آزاد امیدواروں کو ووٹ دینے کے بجائے سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے پر فوقیت دیتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی امیدوار بلے کے نشان پر الیکشن نہیں لڑتے تو ووٹر بھی سوچیں گے کہ آزاد امیدواروں کو ووٹ دینے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔
ہم خیال گروپ بنانے کا آپشن
اگر پی ٹی آئی امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ بھی کسی نہ کسی پارٹی میں اپنے اپنے مفادات کے تحت شمولیت اختیار کریں گے۔ پی ٹی آئی امیدواروں کے پاس آئندہ عام انتخابات میں ایک اور یہ آپشن ہو گا کہ وہ آزاد حیثیت میں جیت کر اپنا ایک ہم خیال گروپ بنا لیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ 100 سے زیادہ امیدوار کامیاب ہوں، اگر 40 یا 50 امیدوار کامیاب ہو بھی گئے تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔
الیکشن کے صاف اور شفاف ہونے پر سوالات اٹھائے جائیں گے، عابد زبیری
ماہر قانون عابد زبیری نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پی ٹی آئی کو بہت نقصان ہوگا۔ اب پی ٹی آئی امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں گے، مخصوص نشستیں نہیں مل سکیں گی، ایسے میں الیکشن کے صاف اور شفاف ہونے پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔ صاف اور شفاف عام انتخابات کا انعقاد کرانا الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے، جو کچھ پی ٹی آئی امیدواروں کے ساتھ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے عمل میں ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
ابھی ڈویژنل بینچ نے فیصلہ نہیں کیا
عابد زبیری نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس فیصلے کے خلاف کل سپریم کورٹ جانے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن سپریم کورٹ کہہ سکتی ہے کہ ابھی ڈویژنل بینچ نے فیصلہ نہیں کیا، لہٰذا اس فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ اگر ایک سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ جمع کرا دیتی ہے تو کوئی جواز نہیں رہتا، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ الیکشن کمیشن کے سامنے کون سے شواہد ایسے آئے کہ جس پر انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات کو آئین کے خلاف قرار دیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں میں بھی ایسے ہی انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے ہیں لیکن کبھی ان پر سوالات نہیں اٹھائے گئے، پارٹی سے نشان نہیں لیا گیا۔
حتمی فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے، احمد بلال محبوب
پاکستان میں قانون سازی اور انتخابات کے عمل کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے کہا کہ بلے کا انتخابی نشان پی ٹی آئی کو ملنے یا نہ ملنے کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ ہی نے کرنا ہے۔
پی ٹی آئی جلدی نہ کرتی تو حالات اس کے مختلف ہوتے
پی ٹی آئی اگر انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں جلدی نہ کرتی تو حالات اس کے مختلف ہوتے، پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے 20 دن کا وقت دیا گیا تھا تاہم پی ٹی آئی نے 7 دنوں میں ہی انٹرا پارٹی انتخابات کے تقاضے پورے کیے بغیر ہی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا، اگر ایک پارٹی پر مشکل وقت آیا ہے تو اس پارٹی کو اس طرح سے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد نہیں کرانا چاہیے تھا۔
پی ٹی آئی کے لیے الیکشن میں بہت سی مشکلات ہوں گی
احمد بلال محبوب نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ بھی پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دیتی تو پی ٹی آئی کے لیے الیکشن میں بہت سی مشکلات ہوں گی۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہو گی کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو ایک نشان نہیں دیا جائے گا بلکہ ہر امیدوار کو الگ الگ انتخابی نشان پر الیکشن لڑنا ہو گا، ایسے میں پی ٹی آئی کے لیے بہت مشکل ہو گا کہ وہ اپنے ووٹرز کو بتا سکیں کہ ان کی پارٹی کے امیدواروں کا انتخابی نشان کیا ہے۔
الیکشن قوانین کے مطابق جو سیاسی جماعتیں اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد صحیح طریقے سے نہیں کراتیں ان کو کوئی ایک انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا جا سکتا۔
پی ٹی آئی کی منظم سوشل میڈیا ٹیم
احمد بلال محبوب نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ایک صلاحیت ہے کہ اس کے پاس بہت ہی منظم سوشل میڈیا ٹیم موجود ہے، اگر سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کی بہتر تشہیر کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ بلے کا نشان نہ ہونے کا زیادہ نقصان نہ ہو۔