لائن وہیں سے شروع ہو جہاں ہم کھڑے ہوں

جمعرات 4 جنوری 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ 20 اگست 2021 کا دن تھا۔ چیف جسٹس گلزار احمد چھٹیوں پر گئے تو ان کی جگہ سینیئر موسٹ جج جسٹس عمر عطا بندیال نے نگراں چیف جسٹس کا حلف اٹھایا۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر موسٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے حلف لیا۔ اس دن مقدمات کی سماعت کے لیے 3 بینچ تشکیل ہوئے۔ ایک کی سربراہی قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کی۔ دوسرے کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جبکہ تیسرے بینچ کی سربراہی جسٹس اعجازالاحسن نے کی۔

اسی روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے 2 رکنی بینچ نے جب اپنے معمول کے مقدمات کی سماعت مکمل کر لی اور بینچ اٹھنے ہی والا تھا کہ صحافیوں کا ایک گروپ اٹھ کر بینچ نمبر 2 کے سامنے روسٹرم پر آگیا۔ ان صحافیوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایک درخواست پیش کی۔ یہ درخواست پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے نام سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پیش کی گئی جو صحافیوں کو درپیش مسائل، گمشدگیوں اور مقدمات سے متعلق تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اس درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کیس کی سماعت دوبارہ نہ کر پائے۔ قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس معاملے پر اپنی سربراہی میں ایک 5 رکنی بینچ تشکیل دے کر اس درخواست کی سماعت خود کی اور پھر جسٹس منیب اختر نے اسی مقدمے کا فیصلہ تحریرکیا جس میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت سوموٹو لینے کے اختیارات صرف چیف جسٹس کے پاس ہیں۔

یہ عمران خان کا دور حکومت تھا جس میں صحافیوں کے اغوا، ایف آئی اے کے ذریعے پیکا قانون کے تحت مقدمات اور مختلف ایجنسیوں کی طرف سے انہیں ہراساں کیے جانے کے کئی واقعات رونما ہوچکے تھے۔ انہی واقعات کے تناظر میں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو درخواست جمع کروائی گئی جس کی سماعت نہیں ہونے دی گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسی مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے منگل کے روز لاپتا افراد کیس میں یہ ریمارکس دیے کہ جب ماضی میں صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے انہوں نے معاملہ اٹھایا تھا تو انہیں روک دیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کا یہی المیہ ہے۔ یہ چاہتے ہیں لائن وہیں سے شروع ہو جہاں یہ کھڑے ہوں۔ انہیں اپنی پسند کا انصاف چاہیے۔ اسی لیے پورے ملک کے لاپتا افراد کے معاملے کو نظر انداز کرکے بیرسٹر اعتزاز احسن اور شعیب شاہین مفاد عامہ کی درخواست لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے اور صرف پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی سیاسی گمشدگی کے معاملے کو عدالتی فورم پر اٹھایا۔ حالانکہ جب یہ درخواست دائر کر رہے تھے اسی وقت سے بلوچ مِسنگ پرسنز کی فیملیز پریس کلب کے باہر دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ جبکہ ملک بھر کے دیگر علاقوں سے مِسنگ پرسنز کے خاندان در در بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ کسی ایک سیاسی جماعت یا افراد کا معاملہ مفادِ عامہ کا کیس بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟

اعتزاز احسن ایک سینیئر اور منجھے ہوئے قانون دان ہیں۔ وہ آئین اور قانون کی باریکیاں بھی سمجھتے ہیں اور سیاسی داؤ پیچ کے بھی ماہر ہیں۔ انہیں معلوم ہے کب اور کہاں سیاسی چال چلنی ہے اور کہاں قانونی داؤ آزمانے ہیں۔ مِسنگ پرسنز کے معاملے پر درخواست دائر کرنے سے پہلے انہوں نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور پی ٹی آئی کے ورکرز اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف 9 مئی کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کو چیلنج کیا تھا۔ حالانکہ ان سے جب ایک ٹی وی پروگرام میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں درجنوں کے حساب سے سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوا تھا اور پی ٹی آئی نے اس کا سرکاری اور پارٹی کی سطح پر دفاع کیا تھا۔ اعتزاز احسن کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اعتزاز احسن ہوں یا کوئی اور پی ٹی آئی رہنما ان کو اپنی پسند کا انصاف چاہیے۔ اور جس عدالت سے پی ٹی آئی کو پسند کا انصاف نہ ملے اس کے ججز کے خلاف یہ میڈیا اور سوشل پر ایک مہم چلا کر ان کو دباؤ میں لاتے ہیں۔

یہی کچھ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پہلے بھی کیا۔ جب انہوں نے فیض آباد دھرنے کے خلاف فیصلہ دیا اور دھرنے میں ملوث سرکاری و غیر کاری افراد کے خلاف فیصلہ دیا تو اس کے بعد ایک منظم مہم چلائی گئی۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ان کے خلاف نا صرف ریفرنس دائر کیا گیا بلکہ پی ٹی آئی کے وزرا گھنٹوں ٹی وی پر آکر ان کے خلاف پریس کانفرنسز کرتے تھے جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی گئی۔

منگل 2 جنوری کو جب چیف جسٹس کی طرف سے پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین سے پوچھا گیا کہ جن لوگوں کے نام آپ کی درخواست میں شامل کیے گئے ہیں یہ کون ہیں۔ وکیل کے بتانے پر کہ یہ سب پی ٹی آئی کے رہنما تھے جن کو غائب کیا گیا اور بعد میں یہ پارٹی چھوڑ گئے تو چیف جسٹس نے بالکل ٹھیک سوال پوچھا کہ جو لوگ غائب ہوئے یا اٹھائے گئے انہوں نے خود درخواست کیوں نہیں دائر کی۔ حق دعویٰ متاثرہ فریق کر سکتا ہے وہ خود سامنے کیوں نہیں آتے؟ یہ بالکل درست سوال ہیں لیکن یہ سوال شاید پی ٹی آئی کو پسند نہیں کیونکہ انہیں تو صرف اپنی پسند کا انصاف چاہیے۔ ان کے مطابق تو دنیا جہاں کے تمام مظالم صرف پی ٹی آئی پر ہی ڈھائے گئے ہیں۔

چیف جسٹس کے ریمارکس سے یہ بات واضح ہوتی ہےاور انہوں نے بطور خاص کہاکہ وہ مِسنگ پرسنز کے معاملے کو منطقی انجام تک لے کر جانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں باقی اسٹیک ہولڈرز بشمول بلوچ مِسنگ پرسنز کی فیملیز، آمنہ مسعود جنجوعہ اور دیگر فریقین کو بھی سننا چاہتے ہیں تاکہ اس معاملے کو کسی ایک پارٹی کی بجائے broader context میں دیکھا جاسکے۔ اسی لیے انہوں نے ہدایات جاری کیں کہ ہمیں لکھ کر بتائیں کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں اور سپریم کورٹ سے آپ اس معاملے پر کیا چاہتے ہیں۔

آج اس کیس کی ایک بار پھر سماعت ہے اور امید ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کو کسی منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ لیکن یہ توقع رکھنا کہ عدالت سلیکٹو انصاف دے گی اور صرف پی ٹی آئی کے متاثرین کو ہی انصاف ملے گا تو میرا خیال ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ مِسنگ پرسنز ایک پرانا اور پیچیدہ معاملہ ہے اور اگر اس کو احسن انداز میں نمٹانا ہے تو تمام فریقین بشمول متاثرین اور ریاستی اداروں کو سن کر ہی اس کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ لائن وہیں سے شروع ہو جہاں پی ٹی آئی کے رہنما کھڑے ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp