حادثاتی طور پر وجود پانے والی عطاءآباد جھیل کے 14 سال، متاثرین کیا کہتے ہیں؟

جمعرات 4 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاک چین دوستی کی علامت سمجھے جانے والی شاہراہ قراقرم پر زمین سرکنے اور مصنوعی جھیل بننے کے حادثے کو 14 سال مکمل ہوگئے ہیں، 4 جنوری 2010 سے قبل عطاء آباد جھیل کے مقام پر سرٹ نامی گاؤں آباد تھا جبکہ ششکٹ نامی گاؤں کی بھی قابل ذکرآبادی موجود تھی جو اچانک ایک قدرتی سانحے کے نتیجے میں ملیامیٹ ہوگئی۔

ہنزہ شہر سے تقریباً 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع عطاء آباد کے مقام پر زمین سرکنے کی وجہ سے سرٹ گاؤں مکمل طور پر دریائے ہنزہ میں گرگیا جبکہ ششکٹ اور غلمت نامی گاؤں کی نشیبی آبادی بھی زیر آب آگئی اور مجموعی طور پر 19 اموات کے علاوہ 2 سو سے زائد گھر بھی جمع ہونیوالے پانی میں ڈوب گئے تھے۔

اس سانحے میں 19 کلومیٹر طویل سڑک بھی لینڈسلائیڈنگ کا شکار ہوئی اور گوجال کی پوری آبادی کا ملک کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ کٹ گیا تھا، حادثے کے نتیجے میں 20 کلومیٹر سے زائد رقبے پر محیط نئی جھیل وجود میں آگئی جس کی گہرائی تین سو فٹ سے زائد تھی۔ کئی مہینوں تک گوجال کے لوگوں کا ہنزہ سمیت گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر حصوں سے زمینی رابطہ منقطع رہا۔

14 ستمبر 2015 تک اس علاقے میں آمدورفت کا واحد ذریعہ جھیل پر کشتی کا خطرناک سفر تھا جس کے بعد پہلی بار 24 کلومیٹر طویل نئی سڑک تعمیر کی گئی جس میں عطاء آباد کے علاقے میں چینی حکومت کے تعاون سے تعمیر کی گئی تین سرنگ بھی شامل ہیں۔

عطاء آباد متاثرین کالونی گلگت میں مقیم وادی ششکٹ سے تعلق رکھنے والے مشروف خان کے مطابق زرخیزی کے باعث عطاء آباد میں ہر قسم کا میوہ پایا جاتا تھا اور بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت تھا لیکن اس حادثے نے لوگوں سے نہ صرف گھر کی چھت بلکہ ذریعہ معاش بھی چھین لیا۔

’جب زمینی رابطہ بحال اور عطاء آباد جھیل میں کشتی کی سہولت فراہم کی گئی تو متاثرین کو ہنزہ منتقل کردیا گیا جہاں کچھ برسوں تک متاثرین خیموں میں مقیم رہے۔۔۔ میں خود اپنے گھر والوں کے ہمراہ کئی مہینوں تک سڑک پر بھی رہا ہوں کیونکہ ہمارے پاس سہولت نہیں تھی اور ٹینٹ میں صرف ایک کمرہ اور واش روم تھا۔ چار پانچ سال ہم اسی حالت میں رہے ہیں۔‘

مشروف خان کے مطابق اس صورتحال میں ہنزہ بھر کے رضاکار ان کے ساتھ کھڑے رہے اور بحالی سمیت سامان کی ترسیل میں بھرپور معاونت کی، اس کے علاوہ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے بھی انہیں وہاں سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

’ٹینٹ سروس بھی ان کی جانب سے دی گئی تھی بعد میں ہمیں وہاں سے کرایہ کے مکانوں میں منتقل کیا گیا جہاں کچھ وقت ہم نے گزارا پھر گلگت دنیور میں بڑا رقبہ خرید کر متاثرین کو دیا گیا، جہاں فی گھرانہ 7 مرلہ زمین آئی جس کی منصوبہ بندی کے بعد دو کمروں کا مکان تعمیر کرکے ہمیں دیدیا گیا۔‘

وادی غلمت سے تعلق رکھنے والی لیلیٰ غازی کہتی ہیں کہ دو گاؤں سرکنے کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا جس سے ابتدائی طور پر ان کا گاؤں محفوظ رہا تاہم دریا کا راستہ رکنے اور پانی کی سطح میں روز اضافے سے پہلے ششکٹ گاؤں اور پھر غلمت کی نشیبی آبادی بھی اس کی زد پر آگئی۔

’لوگ روزانہ یہ امید لیے اٹھتے تھے کہ پانی کی سطح کم ہوجائے گی تو ہم اپنے کھیت کھلیان کو محفوظ کریں لیکن ہر روز پانی کی سطح میں اضافہ ہوتا گیا اور لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزوں کو ڈوبتا ہوا دیکھتے رہے جس سے لوگوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔‘

لیلیٰ غازی کہتی ہیں کہ پانی کے بہاؤ میں اضافہ اس حد تک ہوا کہ گٹرلائن سے واش روم اور گھر میں پانی داخل ہونا شروع ہوگیا جس کے بعد تعمیراتی لکڑی کو محفوظ کرنے کےلیے لوگوں نے خود اپنے گھروں کو اکھاڑنا شروع کردیا تھا، متاثرین نے دربدر کی ٹھوکریں کھائی اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔

’دنیور میں قائم کالونی نے ہمیں سر چھپانے کےلیے چھت تو فراہم کردی لیکن یہاں سہولیات کے نام پر کوئی چیز میسرنہیں تھی، جن لوگوں نے شادیاں کیں وہ پھر بے گھر ہوگئے، پانی، بجلی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی سہولیات بھی یہاں پر دستیاب نہیں تھیں، بڑی مشکل سے یہاں بجلی کا نظام تشکیل دیا گیا مگر ابھی تک مسائل کے باعث لوگ ذہنی مریض بنے ہوئے ہیں۔‘

گوجال سے ہی تعلق رکھنے والے ماحولیاتی کارکن صدام علی نے بتایا کہ اس حادثے سے اگرچہ 4 گاؤں براہ راست متاثر ہوئے تھے لیکن بحیثیت مجموعی پورا گوجال ہی آفت زدہ ہو کر رہ گیا تھا کیونکہ آمد و رفت کی کوئی ترتیب ہی نہیں تھی۔ جو جہاں پھنسا رہا وہی پر بیٹھا رہا۔

’بچوں کو تعلیم کے مسائل درپیش ہوئے، خواتین سمیت بچوں کو صحت کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا، ایک خاتون کو گلگت لے جانے کی کوششیں کی تو راستے میں اس کے بچے کی پیدائش ہوئی، 2015 تک گوجال پورا متاثرہ علاقہ تھا پہلے خنجراب پاس، سوست اور دوسرے سیاحتی مقامات پہ جو سیاح آتے تھے ان کی آمد بھی ختم ہوگئی اور لوگوں کو مشکلات نے گھیر لیا۔‘

متاثرین عطاءآباد کے مطابق 2015 میں جب سرنگ کے ذریعے سڑک کی تعمیر کی گئی تو عطاء آباد یکدم سیاحتی علاقہ بن گیا، جہاں دیکھتے ہی دیکھتے مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمدورفت شروع ہوگئی، حادثاتی طور پر وجود میں آنیوالی عطاء آباد جھیل اب گلگت بلتستان کے نمایاں سیاحتی مقامات میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp