‘شوہر ریٹائر ہوئے تو انہی کی کمپنی سے اپنا کیریئر شروع کیا’، ہر گھر کا حصہ زبیدہ آپا کی کہانی

جمعرات 4 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

زبیدہ آپا کہتی تھیں کہ نہ میرے پاس بہت زیادہ تعلیم ہے نہ ٹریننگ، نہ کوئی تجربہ اور تو اور ادب کے شعبہ میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن پھر ایک وقت آیا کہ پاکستان میں ہر گھر میں میری پہچان بن گئی۔ اسی کے بعد ان کو آپا کا لقب بھی دیا گیا تھا۔ آج زبیدہ آپا کے انتقال کو 6 برس بیت چکے ہیں۔

معروف شیف زبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا کے میاں ملٹی نیشنل کمپنی کے ملازم تھے، سو اسی وجہ سے ان کے گھر ہونے والی دعوتوں میں سیکڑوں افراد شریک ہوتے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ میاں کی ریٹائرمنٹ پر ان کے گھر میں تقریب ہوئی۔ جس میں ان کی کمپنی کے سربراہ بھی شریک تھے، ان کے کھانے اور میزبانی کو دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاں کام کرنے کی دعوت دی۔ زبیدہ آپا کے بقول جس دن ان کے میاں ریٹائر ہوئے تو اس دن انہی کی کمپنی میں ان کی ملازمت ہو چکی تھی۔

کھانے پکانے اور امور خانہ داری کی ماہر زبیدہ طارق کی پیدائش حیدرآباد دکن میں سال 1945 میں ہوئی۔ تقسیم ہند کے وقت ان کا خاندان پاکستان آکر آباد ہوگیا جہاں انہوں نے باقی کی زندگی کراچی میں گزاری۔ ان کی وجہ شہرت ادھیڑ عمری میں ٹی وی چینلز پر کھانا پکانے کے طریقے اور روز مرہ کے معمولات میں پیش آنے والے مسائل کے آسان حل یعنی ٹوٹکے تھے۔ زبیدہ آپا کے نام سے مشہور زبیدہ طارق عوام میں معروف ہونے والی اپنے خاندان کی پہلی فرد نہیں تھیں۔ بلکہ ان کے بڑے بھائی انور مقصود نامور ادیب، ان کی بہن فاطمہ ثریا بجیا معروف مصنفہ، زہرہ نگاہ شاعرہ اور  صغریٰ کاظمی ڈیزائنر ہیں۔ زبیدہ آپا کا انتقال 4 جنوری 2018 کو کراچی میں حرکت قبل بند ہونے کے سبب ہوا۔

اپنےپروفیشنل کیریئر کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 50 سال کی عمر میں کام شروع کیا اور تقریباً 22 سال ٹی وی پر کام کیا۔ مختلف ٹی وی چینلز کے لیے انہوں نے کھانا پکانے کے طریقوں اور گھریلو ٹوٹکوں پر مشتمل تقریباً ساڑھے 6 ہزار پروگرام ریکارڈ کرائے۔

‘اماں نے سکھایا نہیں کہ خود سیکھ جائے گی’

ہر گھر کے دسترخوان اور فیملی کا حصہ بن جانے والی زبیدہ آپا کے حوالے سے دلچسپ بات یہ تھی کہ انہوں نے اپنے بچپن یا جوانی میں کھانا پکانا نہیں سیکھا۔ اگرچہ ان کی والدہ اور بڑی بہنیں بھی کھانا پکانے اور مختلف ڈشز کی ماہر تھیں، بالخصوص ان کی والدہ آخری عمر تک ایک وقت میں سیکڑوں افراد کا کھانا تیار کرلیا کرتی تھیں۔ لیکن ان کے بقول’والدہ نے کپڑے دھلوائے، جھاڑو لگوائی لیکن کھانا نہیں پکوایا کہ جب وقت آئے گا تو سیکھ جاؤ گی’۔   جب شادی کے بعد وہ سسرال آئیں تو پھر انہوں نے اس کام کا آغاز کیا۔ اوائل میں تو انہیں بھی اپنا پکایا پسند نہیں آیا لیکن پھر ان کا ہاتھ ایسا چلا کہ جس نے بھی ان کے ہاتھ کا بنا کھانا کھایا وہ انگلیاں چاٹتا رہ گیا۔

‘جب پہلی بار کھانا پکایا’

پہلی بار کھانا پکانے کے حوالے سے انہوں نے اپنا تجربہ ایک انٹرویو میں شیئر کیا تھا۔ ان کے مطابق شادی کے بعد انہوں نے اپنے میاں کے لیے کڑی بنائی تو اس وقت انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ اس میں دہی بھی ڈالی جاتی ہے۔ پانی اور بیسن کو مکس کر کے اُبالا تو وہ کھانے لائق نہ تھا سو اسے پھینکنا پڑا۔ شام کو میاں گھر آئے تو نئی نئی شادی تھی اس لیے میں انہیں چائینیز کھانے کے لیے لے گئی۔ ان کے گھر میں ٹیلی فون کی سہولت بھی نہیں تھی جو وہ اپنی والدہ سے پوچھ سکتیں۔ سو، مشکل تب پڑی جب میاں کےکچھ پرانے  دوست گھر پر لنچ کے لیے آگئے۔ والدہ کے پکائے ہوئے کھانوں کو یاد کرکے کچھ نہ کچھ پکایا اور میز خوب اچھی طرح سے سجا دیا۔ میاں کے دوستوں نے کھایا تو بہت تعریف کی، جس پر اعتماد ملا کہ ہاتھ میں ذائقہ ہے۔

‘ٹوٹکوں کا راز’

اپنے ٹوٹکوں کے حوالے سے زبیدہ آپا نے بتایا تھا کہ وہ اپنے بچپن سے دادی، نانی کو بچوں کے علاج کے لیے مختلف ٹوٹکوں کا استعمال کرتے دیکھتی آئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں کام کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے کھانے پکانے کے علاوہ ٹوٹکے بھی بتانے شروع کردیے، جو دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp