آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت فیصل صدیقی کے دلائل کے ساتھ ہی جمعہ ساڑے 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے، جمعرات کو فیصل صدیقی اور دیگر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جب کہ اٹارنی جنرل، مخدوم علی خان اور دیگر کل جمعہ کواپنے دلائل پیش کریں گے۔
جمعرات کو سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔ پارلیمنٹ نے ایکٹ بنا دیا ہے تو سپریم کورٹ پھر نا اہلی کا فیصلہ ختم کیوں کرے؟
مزید پڑھیں
کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے، جس میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر سجاد الحسن کے وکیل خرم رضا نے دریافت کیا کہ ان اپیلوں کی سماعت کس قانون کے تحت کی جارہی ہیں، کیا آرٹیکل 187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کیلئے مقرر کی گئی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے انہیں اپنی درخواست تک محدود رہنے کی ہدایت کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر خرم رضا نے تاحیات نااہلی کے حق میں اپنی رائے دی تھی، آج سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کورٹ آف لا کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 99 ہائیکورٹ کو آرٹیکل 184/3 سپریم کورٹ کو ایک اختیار دیتا ہے، سوال یہ ہے کیا آرٹیکل 62ون ایف سپریم کورٹ کو کوئی اختیار دیتا ہے۔
خرم رضا کا موقف تھا کہ ٹریبونل سے آنے والے فیصلے کیخلاف کیس سپریم کورٹ اپیل کے دائرہ اختیار میں سنتی ہے، جس کی تائید کرتے ہوئے چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ کیا 62ون ایف ٹریبونل کو بھی تاحیات نااہلی کا اختیار دیتا ہے یا تاحیات نااہلی کا یہ اختیار سیدھا سپریم کورٹ کے پاس ہے، اس موقع پر خرم رضا نے عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیا۔
’الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا‘
خرم رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ آپ اپنی ہی معروضات کی نفی کرنے والی بات کر رہے ہیں، جب62ون ایف کے تحت کوئی ٹریبونل نہیں کرتا تو سپریم کورٹ کیسے کر سکتی ہے،کیا سپریم کورٹ الیکشن معاملے میں اپیلٹ فورم کے طور پر کام نہیں کرتی، اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا یہ کہاں لکھا ہے، جس پر خرم رضا بولے؛ سپریم کورٹ ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے۔
خرم رضا کا مزید کہنا تھا کہ جن کیسز میں شواہد ریکارڈ ہوئے ہوں وہاں سپریم کورٹ ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے، چیف جسٹس بولے؛ پھر تو آپ سمیع اللہ بلوچ کیس کی حمایت نہیں کر رہے، جس پر خرم رضا کا موقف تھا کہ وہ ایک حد تک ہی اس کیس کی حمایت کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائر ہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔
وکیل خرم رضا کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی پہلی پہلی سطر پڑھیں، جس پر خرم رضا کا کہنا تھا کہ عدالت نے صرف 62ون ایف کی تشریح کرنی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے؛آپ کہتے ہیں ہم 62 اور 63 کو ملا کر نہیں تشریح کر سکتے۔
چیف جسٹس نے خرم رضا کے موقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو تفریق بتائی اس سے متفق نہیں، ایسے تو کوئی غیر ملکی بھی الیکشن لڑ کر منتخب ہو سکتا ہے، ایک الیکشن میں کوئی گریجویٹ نہ ہونے پر نااہل ہوا اور اگلی بار گریجویشن کی شرط ہی نہیں تو اگلی بار نااہل کیسے ہو گا، ایک شخص دیانتداری سے کہتا ہے وہ میٹرک پاس ہے اس پر وہ اگلے الیکشن میں بھی نااہل کیسے ہوگا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ قتل اور اغوا جیسے کیسز میں تو بندہ دوبارہ الیکشن کا اہل ہو جاتا ہے، جس پر وکیل خرم رضا نے اسلامی اصولوں کا حوالہ دیا، اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ آپ اسلام کی بات کرتے ہیں تو پھر اس کی حمایت میں کوئی دلیل بھی پیش کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توبہ اور راہ راست، صراط المستقیم پر واپس آنے کا اصول اسلام میں ہے، شروع میں تو چند ہی لوگ مسلمان تھے، اس طرح تو خلفاء راشدین پھر واپس آہی نہیں سکتے تھے، اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ چلیں موضوع بدل دیتے ہیں۔
آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لیے کیوں نہ شامل کی، چیف جسٹس
وکیل خرم رضا سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اراکین اسمبلی کو جتنی بھی حقارت سے دیکھیں وہ ہمارے نمائندے ہیں، آپ اراکین اسمبلی کی دانش پر ڈکٹیٹرز کی دانش کو فوقیت نہیں دے سکتے، 326 اراکین پارلیمنٹ کی دانش کو سپریم کورٹ کے پانچ ججز کی دانش پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ عدالتی ڈیکلیئریشن کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر دیا جاتا ہے، وہ قانون اب کہتا ہے یہ مدت پانچ سال ہو گی، وکیل خرم رضا کا کہنا تھا کہ پارلیمانی بحث میں تسلیم کیا گیا کہ 62 ون ایف نا اہلی کی مدت پر خاموش ہے۔
چیف جسٹس بولے؛ نااہلی کی یہ شقیں ایک ڈکٹیٹر نے شامل کیں درست یا غلط، یا تو ہم پھر ڈکٹیٹر شپ کو ٹھیک مان لیں، ایک ڈکٹیٹر آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا سب کو اٹھا کر پھینک دیا، منافق کافر سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے، کافر کو پتہ نہیں ہوتا، منافق سب جان کر کررہا ہوتاہے.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے ایک قانون کتاب بنا کر ہمیں دی، ایک شخص ٹہلتا ہوا آتا ہے کہتا ہے نہیں یہ سب ختم، آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لیے کیوں نہ شامل کی، وکیل خرم رضا کی جانب سے آئینی ترامیم کے حوالے پر چیف جسٹس بولے؛ رہنے دیں، ترامیم بھی گن پوائنٹ پر آئیں، کچھ لوگوں نے کہا چلو آدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کا تقدس تب ہو گا جب اسے ہم مانیں گے، یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے، یہاں بیٹھے 5 ججز کی دانش پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہو سکتی ہے، جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں وہ جھوٹا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدالتی ڈیکلریشن کے بغیر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہی نہیں ہوسکتا، جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی بنیاد ڈیکلریشن ہے جس کی معیار اب مقرر کی گئی ہے، وکیل خرم رضا کا موقف تھا کہ پارلیمنٹ نے تسلیم کیا ہے کہ آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پر آئین خاموش ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ ایک ڈکٹیٹر نے ایبڈو کے ذریعے بھی کئی سیاستدانوں کو باہر کیا تھا، میرے والد سمیت کئی لوگوں کو جنرل ایوب نے الیکشن کے لیے نااہل قرار دیا تھا، ڈکٹیٹرز کی جانب سے لائی گئی ترامیم کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے۔
سابق چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کا تذکرہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا نام لیے بغیر دریافت کیا کہ سمیع اللہ بلوچ اور فیصل واوڈا کے مقدمات کے فیصلے ایک ہی جج نے تحریر کیے تھے، کیا یہ دونوں فیصلے یکساں اصول کے اطلاق کی بنیاد پر ایک دوسرے سے میل کھاتے ہیں، جس پر سمیع اللہ بلوچ کے وکیل عثمان کریم بولے؛ بالکل میل نہیں کھاتے۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس نے سمیع اللہ بلوچ کو تاحیات نااہل جبکہ فیصل واوڈا کے خلاف الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلوں کے باوجود نااہلی ختم کردی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ باقی سارا آئین انگریزی میں ہے امین کے لیے انہیں پتہ نہیں تھا انگریزی کا لفظ کیا ہے، جنرل ضیاء یا ان کے وزیرقانون کو امین کا مطلب معلوم نہیں تھا کیا، یہ چیزیں صرف کنفیوژ کرنے کے لیے شامل کی گئی ہیں یا کوئی اور وجہ بھی تھی۔
جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ صادق اور امین کی تعریف کیا ہو گی، صادق و امین کا مطلب وہی ہے جو اسلام میں ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کون طے کرے گا کس کا کردار اچھا ہے یا نہیں، جس پر خرم رضا بولے؛ اس کا تو خدا ہی تعین کر سکتا ہے۔
وکیل عثمان کریم کا موقف تھا کہ اگرصادق وامین کا اسلامی مطلب دیکھیں گے تو پھر یہ غیر مسلم پر لاگو نہیں ہوگا، جس پر چیف جستس بولے؛ غیر مسلم بھی صادق و امین ہو سکتے ہیں، وکیل خرم رضا سمیت جو تاحیات نااہلی کی حمایت کر رہے وہ اپنے نکات بتا دیں، تین وکلا نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی تھی۔
سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی ’جج میڈ لا‘ ہے
وکیل اصغر سبزواری کا کہنا تھا کہ تاحیات نااہلی اگر ڈکٹیٹر نے شامل کی تو اس کے بعد منتخب حکومتیں بھی آئیں، سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی ’جج میڈ لا‘ ہے، جہانگیز ترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونا چاہیے جہاں ٹرائل کے بغیر تاحیات نااہل کر دیا گیا تھا۔
جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ جب قانون آچکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی، چیف جسٹس بولے؛ سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، آمروں اورسیاست دانوں کوایک ساتھ نہیں پرکھا جاسکتا، آمرآئین توڑ کر حکومت میں آتا ہے منتخب ہوکرنہیں آتا، سیاست دانوں کوایسے برا نہ بولیں وہ عوامی رائے سےمنتخب ہوتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 علیحدہ متعارف کرانے کی ضرورت کیا تھی، ایک آرٹیکل کہتا ہے کون کون اہل ہے دوسرا کہتا ہے کون نااہل، دونوں باتوں میں فرق کیا ہے، چیف جسٹس بولے؛ کوئی دوسری شہریت لیتا ہے تو وہ 62 میں نہیں 63 میں پھنسے گا۔
وکیل عثمان کریم نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا فیصلہ دیا، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی، سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظر ثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی۔
وکیل عثمان کریم کا موقف تھا کہ جسٹس بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کر کے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ کے مطابق جسٹس بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی موقف کی نفی کی، جس پر وکیل عثمان کریم نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کے تحت سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ 5 رکنی بینچ کا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے عثمان کریم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ اچھی تیاری کر کے آئے ہیں، اور بھی معاونت کریں، الیکشن سر پر ہیں ہم نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے۔
عدالتی معاون عزیز بھنڈاری کے دلائل
سماعت میں وقفہ کے بعد کارروائی شروع ہوئی تو عدالتی معاون عزیز بھنڈاری نے عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ 18ویں ترمیم کرنے بیٹھی تو 62ون ایف کو نہیں چھیڑا حالانکہ پارلیمنٹ کو علم بھی تھا کہ 62 ون ایف کی ایک تشریح آچکی ہے، سمیع اللہ بلوچ کیس کے کچھ پہلو ضرور دوبارہ جائزے کے متقاضی ہیں۔
عدالتی استفسار پر عزیز بھنڈاری کا کہنا تھا کہ وہ سمیع اللہ بلوچ کیس نااہلی کے مکینزم کی بات نہیں کر رہے، 18ویں ترمیم کے بعد بھی کئی آئینی ترامیم ہوئیں، کسی بھی آئینی ترمیم میں آرٹیکل 62ون ایف کی بات نہیں ہوئی۔
اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ ایک فارم میں تبدیلی پر پورا پاکستان بند کر دیا گیا تھا، شاید اس لیے اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا ہو، ریاست نے سوچا ہو گا ان لوگوں سے کون نمٹے گا، جس پر عزیز بھنڈاری بولے؛ یہ غالب جیسی بات ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا۔
عزیر بھنڈاری کا موقف تھا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کے فیصلے کوختم کیے بغیر راستہ نکالا جاسکتا ہے، پرسوں اس عدالت میں کہا گیا 62ون ایف 63 سے ملا کر پڑھا جائے، یہ نکتہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تفصیل سے اٹینڈ کیا گیا، اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ آپ اپنے اصل نکتے پر آجائیں ایسا نہ ہو آج لاہور نہ جا سکیں، جس پر عزیز بھنڈاری بولے؛ میں 20 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
عزیز بھنڈاری نے عدالت کو بتایا کہ کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسر کے پاس جاتے ہیں جو نااہلی کا ڈیکلیئریشن نہیں دے سکتا، الیکشن ٹربیونل تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر نااہلی کا ڈیکلریشن دے سکتا ہے، ڈیکلیئریشن کون دے سکتا ہے یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں نہیں لکھا ہوا، جس پر چیف جسٹس بولے؛ کوئی عدالت کسی کے سچے ہونے کا ڈیکلیئریشن کیسے دے سکتی ہے، ایماندار، امین اور فضول خرچ نہ ہونے کا تعین عدالتیں کیسے کر سکتی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ تاحیات نااہلی کیس میں تو سب کچھ سپریم کورٹ نے ہی کیا، جسٹس منصور علی شاہ بولے؛ آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے سپریم کورٹ ایسا ڈیکلیئریشن دے سکتا ہے، چیف جسٹس نے مزید استفسار جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک فوجداری یا سول کیس میں ایک گواہ جھوٹ بولتا ہے کیا اس بنیاد پر تاحیات نااہلی ہو سکتی ہے۔
عدالتی معاون عزیر بھنڈاری کا موقف تھاکہ آرٹیکل 10 اے شفاف ٹرائل کی بات کرتا ہے، ریٹرننگ افسر ڈیکلیئریشن نہیں دے سکتا، ریٹرننگ افسر کورٹ آف لا نہیں ہے، اس موقع پر چیف جسٹس بولے؛ آپ اپنے ہی دلائل کی نفی کر رہے ہیں،ایک جج کہے گا نااہلی ہوتی ہے دوسرا جج کہے گا نااہلی نہیں ہوتی۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ڈیکلیئریشن کہاں سے آئے گا، جعل سازی پر ڈیکلیئریشن کون دے گا، کچھ الفاظ ایسے ہیں جو محض کاغذ کے ٹکرے کے سوا کچھ نہیں، اس موقع پر عزیر بھنڈاری بولے؛ میں عدالتی معاون ہوں، سوال در سوال نہ کریں، جس پر ججز مسکرا دیے۔
عزیر بھنڈاری بولے؛ اگر آپ کہیں تو میں اپنے سوالات واپس لے لیتا ہوں، تسلیم شدہ حقائق پر سپریم کورٹ سمیت سول کورٹ بھی ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے چیزوں کو آسان بنانا ہے مشکل بنانا نہیں، ہمیں ریٹرننگ آفیسر کے لیے آسانی لانی ہے مشکل نہیں، ہمیں صرف بتائیں سزا تاحیات ہوگی یا پانچ سال، آپ نے تو ریٹرننگ افسر کو کورٹ آف لا بنا دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ایک شخص کوالیفائی کر کے رکن بن گیا اور بعد میں وہ خراب ہو گیا تو کیسے نکالیں گے، نااہل کرنے والے آرٹیکل 63 میں تو 62 ون ایف کا ذکر نہیں، ایسی صورت میں ’کو وارنٹو‘ کی رٹ استعمال کی جائے گی۔
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بولے؛ بھنڈاری صاحب میں بات نہیں سمجھ پا رہا، جس پر عزیز بھنڈاری جواباً بولے؛ میں پھر معذرت کر لیتا ہوں، ڈیکلیئریشن کہاں سے آنا ہے اگر یہ سوال ہے ہی نہیں تو چھوڑ دیتے ہیں، جسٹس یحیحی آفریدی نے عزیز بھنڈاری کو اپنے دلائل اپنی ترتیب سے جاری رکھنے کا کہا۔
تاہم چیف جسٹس بولے؛ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں مگر ہمیں کیس ختم بھی کرنا ہے، ہم نے اپنا آرڈر لکھنا بھی ہے، عزیز بھنڈاری نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ڈیکلیئریشن ’کو وارنٹو‘ میں بھی دیا جا سکتا ہے، خواجہ آصف کیس میں ایسا ’کو وارنٹو‘ دیا گیا، ہائیکورٹ بھی ’کو وارنٹو‘ میں ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جھوٹ بولنے والا تاحیات نااہل اور بغاوت کرنے والا پانچ سال نااہل کیسے ہوسکتا؟ اس نکتے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا، پارلیمنٹ نے یہ ترامیم مرضی سے نہیں کیں، ان پر تھوپی گئی ہیں، جس پر عزیز بھنڈاری بولے؛ 18ویں ترمیم کسی نے تھوپی نہیں ہے۔
چیف جسٹس بولے؛ پورے پاکستان کو یرغمال بنانے والے دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں، آئین میں یہ سب چیزیں کہاں سے آئیں یہ کوئی نہیں بتا رہا، کوئی وکیل بھی ڈکٹیٹر کیخلاف بات نہیں کرتا، ڈکٹیٹر کہتا ہے یہ ترامیم کرو نہیں تو میں 25 سال بیٹھا رہوں گا، آمر کو ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ اس کی بات مان لیتی ہے۔
ہوا میں باتیں کر رہے ہیں، کیا ایک ڈیکلیئریشن آنے کے بعد کوئی دوبارہ عدالت جا سکتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہوا میں باتیں کر رہے ہیں، کیا ایک ڈیکلیئریشن آنے کے بعد کوئی دوبارہ عدالت جا سکتا ہے، کیاکوئی جا کر کہہ سکتا ہے اب توبہ کر لی ڈیکلیئر کریں، میں بہت اچھا مسلمان ہوں، جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا ایسا کوئی فیصلہ موجود ہے جس میں ایسا فیصلہ دیا گیا ہو۔
عزیر بھنڈاری بولے؛ میں نے فیصل واوڈا کیس میں ایسا دیکھا ہے، جس پر چیف جسٹس بولے؛ کسی کو سب سے زیادہ ڈسکشن دینا بہت خطرناک ہوتا ہے، میں توقع رکھتا تھا کہ آپ آئینی معاونت کریں گے، یہ نہیں ہو سکتا فیصل واوڈا ندامت دکھائے تو معاملہ عدالتی موڈ پر چلا جائے، عدالت کا موڈ ہو تو تاحیات نااہلی کرے موڈہو تو چھوڑ دے ایسا نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی وکیل نے ڈکٹیٹر کے خلاف کبھی بات نہیں کی۔ اس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ انہوں نے جتنی ڈکٹیٹر پر تنقید کی اتنی ہی 18 ویں ترمیم پر کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ بیچاروں پر تو تنقید آسان ہے جس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ کہ وہ بندوق والوں سے نہیں لڑ سکتے جنہیں ووٹ دیا ان سے ہی پوچھ سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’میں کہہ رہا ہوں ڈیکلیریشن سوٹ فائل کرنے سے آسکتا ہے، میری یہ رائے ہے اسے آپ مانیں یا نہ مانیں‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جھوٹ بولنے والا تاحیات نااہل اور بغاوت کرنے والا 5 سال نااہل کیسے ہوسکتا، اس نکتے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا، پارلیمنٹ نے یہ ترامیم مرضی سے نہیں کیں ان پر تھوپی گئی ہیں۔ پورے پاکستان کو یرغمال بنانے والے دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں، آئین میں یہ سب چیزیں کہاں سے آئیں یہ کوئی نہیں بتا رہا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کبھی بھی فیصل واوڈا کیس کی روشنی میں کسی کو بھی صادق اور امین قرار دے سکتی ہے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس جج کے لیے بھی کوئی معیار ہے جو کسی کو صادق و امین کا ڈکلیریشن دیتا ہے اور کیا خود جج اس معیار پر پورا اترتا ہے جو کسی اور کو امین قرار دے۔
چیف جسٹسنے کہا کہ پاکستان میں اپنی غلطی پر معافی مانگنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، آرٹیکل 17 ہر شہری کا ایک بنیادی حق ہے، اگر بنیادی حق اور آئین کی دوسری شق میں تضاد ہو تو کس کو ترجیح دی جائے گی؟
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میری نظر میں بنیادی حقوق پر مبنی آئینی شق کو ترجیح دی جائے گی اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فرض کریں تاحیات نااہلی کا فیصلہ نہ ہوتا تو کیا آرٹیکل 17 کی بنیاد پر ہم فیصلہ کر سکتے ہیں؟
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل 17 پر بحث کی گئی ہے، پارلیمان الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نااہلی کی مدت کم کرنے کی مجاز نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شکر ہے آرٹیکل 62 ون ایف کی اہلیت کا معیار ججز کے لیے نہیں ہے اور اگر ججز کے لیے ایسا معیار ہوتا تو کوئی بھی جج نہ بن سکتا، میں تو ڈر گیا ہوں شکر ہے پارلیمان نے یہ معیار ہمارے لیے مقرر نہیں کیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا نیب کے علاوہ کسی قانون میں سزا کیسے نااہلی ہوتی ہے؟ اس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ نیب کے علاوہ کسی قانون میں سزا کےساتھ نااہلی کا علم نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالینے استفسار کیا کہ کیا ڈیکلریشن دینے والے جج کے لیے بھی صادق اور امین ہونے کا معیار مقرر ہے؟
عزیر بھنڈاری نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ جس کے خلاف ڈیکلریشن دیا جا رہا ہو وہ جج سے پوچھ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم دونوں ختم ہوگئے تو نااہلی کیسے ہوگی؟
عزیر بھنڈاری بولے کہ نااہل کرنے کے لیے عدالت کو آئین کے دوسرے آرٹیکلز کا سہارا لینا ہوگا۔ اس طرح عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے دلائل مکمل کر لیے۔
تاحیات نااہلی کے عدالتی فیصلے کا پس منظر
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 13 اپریل 2018 کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ وہ تاحیات ہوگی جبکہ اس وقت بینچ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ قوم اچھے کردار کے مالک قائدین کی مستحق ہے، مذکورہ فیصلہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت پی ٹی آئی میں شامل جہانگیر ترین کی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے تناظر میں کیا گیا تھا۔
28 جولائی 2017 کو پانامہ مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عوامی عہدے کے لیے تاحیات نااہل قرار دیا تھا اور اس کے بعد 5 دسمبر 2017 کو پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین بھی تاحیات نااہل قرار پائے تھے۔
11 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے امام قیصرانی بنام میر بادشاہ قیصرانی انتخابی عذرداری کیس کی سماعت کے دوران تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے نوٹس لے کر معاملہ لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔
سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کیا جائے، فیصل صدیقی
عدالتی معاون کار فیصل صدیقی نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’ میں انہی نکات پر فوکس کروں گا جو عدالت کے سامنے ہیں۔ میں نااہلی کی مدت پر بات کروں گا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس صرف مدت کی بات کرتا ہے، فیصل صدیقی نے تاحیات نااہلی والے سمیع اللہ بلوچ کے فیصلے کو ختم کرنے کی حمایت کر دی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے پیچھے نیت دیکھنا ہوگی، ترمیم سے نااہلی کی مدت زیادہ سے زیادہ 5 سال کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوابدید عدالت پر چھوڑی گئی ہے کہ 5 سال کے اندر کتنی مدت کی نااہلی کرنی ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا مقصد سمیع اللہ بلوچ کیس کو ’اووررائٹ ‘کرنا تھا۔
وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ نااہلی کی مدت کا تعین کر رہا ہے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کرنے کی نیت سے کی گئی یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر الیکشن ایکٹ کی ترمیم برقرار رکھنی ہے تو سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم ہونا ہو گا، نااہلی کی مدت، طریقہ کار اور پروسجر کا تعین ہونا ضروری تھا۔
پارلیمنٹ نے ایکٹ بنا دیا ہے تو سپریم کورٹ پھر نا اہلی کا فیصلہ ختم کیوں کرے؟ چیف جسٹس
اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ اگر پارلیمنٹ نے پہلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کر دیا ہے تو عدالت کیوں اپنے فیصلے کو ختم کرے؟
اس پر چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ آئین میں خلا کہ صورت میں یہی کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اس کو پر کرنے کے لیے عدالتی تشریح ہی ہو گی؟
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آئین جن چیزوں پر خاموش ہے اس کا مقصد قانون سازی کا راستہ کھلا رکھنا بھی ہو سکتا ہے نا کہ عدالت اس پر مزید تشریح کر سکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں تو قتل کی سزا بھی درج نہیں اس لیے تعزیرات پاکستان لایا گیا۔
اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کر سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلے چلے گا یا الیکشن ایکٹ۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت کم سے کم 5 سال کرتے وقت الیکشن ایکٹ ترمیم کا اطلاق 18 ویں ترمیم سے کیا۔ سمیع اللہ بلوچ نے ایسا فیصلہ دیا جس پر آئینی خلا تھا۔ سمیع اللہ بلوچ فیصلہ اس لیے آیا کہ آئینی خلا پیدا ہو سکے۔
وہ نظریہ بتائیں جو اس صورتحال سے باہر نکالے، جسٹس منصو علی شاہ کا مکالمہ
اس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کہہ رہے الیکشن ایکٹ اور عدالتی فیصلے کی موجودگی میں تیسرا راستہ نکالا جائے۔ وہ نظریہ بتائیں جو اس صورتحال سے باہر نکالے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑ دے؟۔ پارلیمنٹ خود دیکھے جو ترمیم کرنی ہے کر لیں۔
فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ چیزوں کو آئینی تناظر میں دیکھنا چاہیے، سب کچھ آئین کی حدود میں ہونا چاہیے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ہم کیسے آئینی حدود میں معاملات کو طے کریں؟ اس کا حل کیا نکالا جائے؟
نااہلی کی مدت کو 5 سال تک کرنا ایک آئینی چیز کو کنٹرول کرنے جیسا ہے، جسٹس منصور علی
اس کے جواب میں فیصل صدیقی نے کہا کہ اس معاملے کو آئندہ پارلیمنٹ پر چھوڑا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈیکلیریشن کی مدت 5 سال تک رکھنا الگ بات ہے، قانونی ترمیم سے شاید وہ اس سے تھوڑا آگے چلے گئے۔ نااہلی کی مدت کو 5 سال تک کرنا ایک آئینی چیز کو کنٹرول کرنے جیسا ہے۔
اس کے جواب میں فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، الیکشن ایکٹ کی ترمیم باقی رہے گی یا سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ، اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں دی گئی چیز کو سادہ قانون سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلہ نہ بھی ہوتا پارلیمنٹ سادہ قانون سے یہ نہیں کر سکتی تھی۔
اس پر فیصل صدیقی نے اپنے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم ہونا چاہیے، اس ملک میں عدالتی قتل سے بھی جمہوریت کو سبوتاژ کیا گیا، عدالت آئندہ انتخابات تک ہی نااہلی کو محدود رکھے۔
آئندہ انتخابات تک ڈیکلریشن ازخود کیسے ختم ہوجائے گا، جسٹس محمد علی مظہر
اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئندہ انتخابات تک ڈیکلریشن ازخود کیسے ختم ہوجائے گا؟ کاغذات نامزدگی مسترد ہو جائیں تو ڈیکلریشن لیکر امیدوار کہاں جائے گا؟
اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں ڈیکلریشن دینے کا کوئی طریقہ کار نہیں دیا گیا، بے ایمانی کا ڈیکلریشن آنے تک ہر شخص ایماندار تصور ہوگا، فیصل واووڈا اور تاحیات نااہلی کے فیصلوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیصل واووڈا کیس میں نااہلی کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا، عدالت نے قرار دیا تھا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، عدالتی معاون فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد کیس کی سماعت جمعہ کو ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔