‘سائفر کے معاملے پر امریکا میں لوگ پاکستان پر ہنستے ہیں’

جمعہ 5 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکا کی ٹیکساس یونیورسٹی میں جرنلزم کے پروفیسر ڈاکٹر اویس سلیم نے کہا ہے کہ ان کی صحافتی زندگی کا سفر پاکستان سے شروع ہوا، انگریزی اخبار سے منسلک رہنے کے بعد جب الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا تو رپورٹنگ کے بجائے نیوز روم مینجمنٹ کا کام کیا جس کے بعد امریکا میں بھی یونیورسٹی کے طالبعملوں کو نیوز روم مینجمنٹ کا کام ہی سکھا رہے ہیں۔

وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر اویس سلیم نے پاکستان اور امریکا میں صحافتی اقدار اور طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکا میں صحافت کا بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ پروفیشنلز کو ہی پڑھانے کا موقع دیتے ہیں کیونکہ جب ہم بھی یہاں پاکستان میں پڑھتے تھے تو ہمارا یہی اختلاف ہوا کرتا تھا کہ جس شخص نے کبھی رپورٹنگ نہیں کی اور کبھی ایڈورٹائزنگ نہیں کی اور اس شعبے سے کبھی وابستہ نہیں رہا تو وہ ہمیں کیا پڑھائے گا۔

ڈاکٹر اویس سلیم نے کہا کہ باقی دنیا میں جو پروفیشنلز ہیں وہ کچھ عرصے کے بعد ٹیچنگ کی طرف آجاتے ہیں، ان کی جب سلیکشن ہوئی تھی تو وہ بھی اس بنیاد پر ہی ہوئی تھی کہ ان کے پاس فیلڈ کا تجربہ تھا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی میڈیا کے ادارے ہیں ان میں کمرشلزم ہر جگہ ہے، سوشل میڈیا کا اثر رسوخ ہے لیکن اس کے باوجود کسی حد تک آپ سیریس جرنلزم بھی کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میڈیا ہاؤسز میں پولرائزیشن چل رہی ہے اور ہمارے میڈیا کے ادارے اسی چیز کا شکار بھی ہیں، یہاں تک کہ مغرب میں بھی یہی صورت حال ہے‘۔

ڈاکٹر اویس سلیم نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے امریکا میں فوکس اور سی این این ہے ان کی سیاسی وابستگی کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں، اور ان کے دیکھنے والوں کو اس بات کا علم بھی ہے، اس کے باوجود وہاں این بی سی جیسے ادارے اور پبلک سروس براڈکاسٹنگ بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں کے دیکھنے والوں کے پاس مختلف چوائسز موجود ہیں۔

عمران خان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سائفر معاملہ پر ان کا جو نقطہ نظر ہے وہ بالکل الگ ہے، کیونکہ انہوں نے وائٹ ہاؤس کی بریفنگ دیکھی ہوئی ہیں اور اس تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ جس طرح پاکستان میں لوگ مقامی سیاسی مقاصد کے لیے بین الاقوامی تعلقات کو اسٹیک پر لگاتے ہیں یہ بات ملک سے باہر لوگوں کو سمجھانا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ پاکستان ایسا کیوں کرتا ہے اور اس طرح کی بدنظمی ہمارے یہاں کیوں ہے۔

’امریکی نظام میں ڈونلڈ لو کی ایسی کوئی حیثیت نہیں‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر سائفر یا ڈونلڈ لو والے معاملے کو دیکھا جائے تو یہ بات تو واضح ہے کہ ہمارے لیے یا عمران خان صاحب کے لیے ڈونلڈ لو بہت بااثر شخص ہوگا، حکومتیں پلٹ رہا ہوگا لیکن امریکی نظام کے مطابق اس کی اتنی حیثیت ہی نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہاں سے کسی نے ڈونلڈ لو کے کان میں پھونک ماری ہو، اور ڈونلڈ لو نے جو بائیڈن کے کان میں پھونک ماری ہو تو یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ امریکی نظام بالکل بھی ایسے کام نہیں کرتا۔ وہ ایک الگ بات ہے کہ امریکا نے پوری دنیا میں اس طرح کے کام کیے ہیں اور بعد میں اس بات کو تسلیم بھی کیا ہے۔

ڈاکٹر اویس سلیم نے کہا کہ ’لیکن یہاں پر کم از کم امریکی میڈیا میں یا ہمارے دوست جو امریکا میں بڑے اچھے عہدوں پر یا صحافت میں شامل ہیں اس بات پر ہنستے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر آپ فرض کریں کہ ڈونلڈ لو نے ایسا کیا بھی ہے تو مجھے حیرت ہے کہ پھر یہی لوگ کیسے دوبارہ وہیں جاتے ہیں اور اپنی حکومت کو دوبارہ واپس لانے کے لیے لابنگ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر اویس سلیم نے کہا کہ ’آپ ہماری حکومت کا ساتھ دیں تاکہ عمران خان کو واپس لے آئیں، باقی دنیا اس پر ہنستی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے، میمو گیٹ کے بعد تو وہ لوگ اس چیز پر زیادہ بات ہی نہیں کرتے ہیں۔‘

’کیپیٹل ہل واقعے میں ملوث ہزار سے زائد افراد سزا بھگت رہے ہیں‘

کیپیٹل ہل اور 9 مئی واقعے میں مماثلت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر اویس سلیم کا کہنا تھا کہ رول آف لا تو ضروری ہے اور ہر معاشرے کے لیے ضروری ہے، جیسے 9 مئی کا واقعہ ہوا ہے، اس پر یہی کہنا چاہوں گا کہ ہمیشہ 2 انتہا پسندوں کے درمیان ہی لڑائی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جیسے پی ٹی آئی کہتی ہے کہ ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا، ہمارے ساتھ تو سازش ہو گئی ہے۔ دوسری جانب والے کہتے ہیں کہ شاید یہ دہشتگرد ہوگئے ہیں، یہ بہت بڑا واقعہ ہو گیا ہے ان کا ایسا انجام ہونا چاہیے جو کسی نے نہ دیکھا ہو‘۔

ڈاکٹر اویس سلیم نے مزید بتایا کہ امریکا میں جب 6 جنوری کا واقعہ ہوا تھا، اسی طرح لوگوں نے دفتروں پر حملے کیے، آگ لگائی، دفتروں میں گھسے، تصاویر بھی آئیں، ساری دنیا نے دیکھا، ایک ہزار سے زیادہ لوگ ایسے تھے جن کو ان تصاویر اور ویڈیوز سے پن پوائنٹ کرکے گرفتار کیا گیا اور اب وہ لوگ سزا بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ان کا بھی یہی نکتہ نظر تھا کہ ہمارا تو خیال نہیں تھا کہ ہم کوئی غلط کام کررہے ہیں، ہم تو ڈونلڈ ٹرمپ پر زیادتی کا ازالہ کرنے آئے تھے‘۔

’9 مئی حملہ آوروں کے خلاف ہی کارروائی ہونی چاہیے نہ کہ ان کے خاندان پر دھاوا بولا جائے‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اصول طے کرلیا جائے کہ جو زبردست ہے یا جو چڑھائی کر سکتا ہے اور جلاؤ گھیراؤ کر سکتا ہے تو اس کا حق ہے، اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائے تو اس کی کامیابی تصور کیا جائے تو سمجھ لیں ہم اصل تہذیب سے ہٹ کر قبائلی تہذیب کی طرف نکل آئے ہیں۔

ڈاکٹر اویس سلیم نے مزید کہا کہ ایک اور پوائنٹ یہ ہے کہ اگرکسی نے یہ کام کیا ہے یعنی کورکمانڈر ہاؤس پر حملہ کیا ہے اور مور چرائے ہیں تو صرف اسی شخص کو گرفتار کیا جائے، اسی کو سزا ملنی چاہیے نہ کہ خاندان کو اٹھا لیا جائے یا پورے پورے خاندان پر دھاوا بول دیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp