پاکستان میں کوئی بحران نہیں، بحران صرف سپریم کورٹ اور زمان پارک سے آ رہا ہے۔ عام انتخابات اسی سال اکتوبر میں ہوں گے، صرف یہ چاہتے ہیں کہ فل کورٹ کی صورت میں اجتماعی دانش بروئے کار آئے، جولائی سے دسمبر تک ساڑھے دس ارب ڈالر کے قرضے واپس کیے، جب کہ ملک دیوالیہ ہونے کا شور مچایا جاتا رہا۔ فل کورٹ بنا کر فیصلہ نہ کیا گیا تو ریفرنس کا آپشن اوپن ہے۔ عمران خان سے مذاکرات کی بات اس لیے کی کیونکہ اس کے ووٹرز کا احترام ہے۔ ہائبرڈ نظام کے سب سے بڑے ذمے دار جنرل باجوہ ہیں۔ نئی نسل جمہوریت کے ساتھ کمٹڈ نہیں، بجلی کی قیمت کم رکھنےکے لیے لوڈشیڈنگ ضروری ہے۔
’ سمجھتے ہیں کہ احتجاج ضرور کرنا چاہیے‘
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے وی نیوز کے ساتھ ایکسکلوسیو انٹرویو میں کہا کہ ’ان کی جماعت الیکشن التواء کیس میں سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنے کو تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے اس سے پہلے بھی نتائج بھگتے ہیں اور اب بھی بھگتنے کو تیار ہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ احتجاج ضرور کرنا چاہیے۔
’سپریم کورٹ کے پاس ایسے اختیارات نہیں کہ وہ جو چاہے کر گزرے‘
ایک سوال کے جواب میں خرم دستگیر کا کہنا تھا ’ہم عدلیہ میں کسی تقسیم کے ساتھ نہیں لیکن سپریم کورٹ کے پاس ایسے اختیارات نہیں کہ وہ جو چاہے کر گزرے‘۔
’اختلافی نوٹ عدلیہ کے بارے میں چارج شیٹ ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی مقدمات میں بنیادی حقوق کو روندا گیا ہے، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اجتماعی دانش کو کام میں لایا جائے۔ فل کورٹ بنے اور وہ انتخابات کا فیصلہ کرے‘۔ الیکشن التواء کیس میں خرم دستگیرنےکہا کہ ’جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ عدلیہ کے بارے میں چارج شیٹ ہیں جس میں انہوں نے جج کے لبادے میں سیاستدان کی بات کی ہے‘۔
’ نواز شریف کی نااہلی انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ تھا‘
انہوں نے کہا کہ ’پاناما کیس میں میاں نواز شریف کی نااہلی ایک انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ تھا جس پر بہت سارے سنجیدہ نوعیت کے سوالات ہیں۔ پہلے نااہل کیا، پھر کہا کہ بطور پارٹی قائد بھی نااہل ہیں، پھر 2018 کے سینیٹ انتخابات میں کہا کہ پارٹی کا انتخابی نشان شیر استعمال نہیں کر سکتے جو کہ بہت بڑی زیادتی تھی‘۔
’حکومت کے پاس ریفرنس کا آپشن اوپن ہے‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’الیکشن التواء کے معاملے میں سپریم کورٹ کو فل کورٹ بنانا چاہیے ورنہ حکومت کے پاس ریفرنس کا آپشن اوپن ہے‘۔ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’ہم کسی عدلیہ کے کسی دھڑے کے ساتھ نہیں‘۔ پچھلے کچھ سالوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس وقت واضح طور پر عدلیہ کا جھکاؤ ن لیگ کے خلاف رہا ہے‘۔
’ہم بھی چاہتے ہیں الیکشن ہو‘
اس سوال پر ہے کہ کیا مسلم لیگ نواز انتخابات سے بھاگ رہی ہے؟ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ہم بھی چاہتے ہیں الیکشن ہو، لیکن 2018 جیسا الیکشن نہیں چاہتے جس کی کڑواہٹ ابھی تک فضا میں رچی بسی ہے، ہم اسی لیے حکومت میں آئے کہ 2018 کے انتخاب کا طریقہ کار نہ دہرایا جائے‘۔
’الگ الگ وقت میں انتخابات سے ان کی شفافیت متاثر ہوگی‘
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے الگ الگ وقت میں انتخابات سے ان کی شفافیت متاثر ہوگی۔ جب صوبے میں ایک جماعت کی حکومت قائم ہو جائے گی تو لامحالہ اس کا اثر وفاقی حکومت کے انتخابات پر پڑے گا‘۔
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پی ڈی ایم جماعتوں کی حکومت ہے جنہوں نے 2018 کے انتخابات میں 68 فیصد ووٹ لیے تھے جب کہ پی ٹی آئی نے 32 فیصد ووٹ لیے تھے‘۔
’ایک عدالتی فیصلے سے حکومت الٹا دی گئی‘
خرم دستگیر نے کہا کہ ’پنجاب 12 کروڑ عوام کا صوبہ ہے جس کی حکومت ایک عدالتی فیصلے سے الٹا دی گئی اور بعد میں اپنے فیصلے کو ہی الٹ دیا۔ نہال ہاشمی، دانیال عزیز کو نااہل کیا گیا اورانہی الزامات پر عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘۔
’اب ہائبرڈ نظام موجود نہیں‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’عمران خان حکومت میں ہائبرڈ نظام موجود تھا لیکن اب ایسا نہیں‘۔عمران دور میں ہائبرڈ نظام ملک کو فاشزم کی طرف دھکیل رہا تھا جس کو ہم نے روکا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائبرڈ نظام کے ذمے دار جنرل باجوہ ہیں‘۔
’نئی نسل جمہوریت سے مخلص نہیں‘
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’نئی نسل جمہوریت کے ساتھ اتنی وابستگی نہیں رکھتی جتنی اس سے پہلی نسل رکھتی تھی اور موجودہ نسل جمہوری تصورات کو بھی نہیں سمجھتی۔ جب کہ تمام مسائل کا حل جمہوریت میں ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے نمائندے پارلیمنٹ میں موجود ہیں، ہمیں ان کے ووٹرز کا احترام ہے اس لیے ان کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں لیکن بزدلانہ مصالحت نہیں چاہتے۔ اسی بزدلانہ مصالحت کی وجہ سے جرمنی تباہ ہوا‘۔
’کیا جمہوریت ختم کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے؟‘
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کو ضرور سزا ملنی چاہیے لیکن ہمارے سامنے جنوبی افریقہ کی مثال موجود ہے جہاں ٹروتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمیشن بنا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سابق چیف جسٹس صاحبان اور سابق جرنیل اگر اپنے گناہوں کا اعتراف بھی کر لیں تو یہ بھی بہت بڑی بات ہے‘۔
’موروثی قیادت پر جلد اتفاق رائے ہو جاتا ہے‘
ن لیگ میں موروثیت سے متعلق سوال پر خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ موروثیت تب ہی قائم رہتی ہے جب عوام اسے ووٹ دیتے ہیں اور دوسری وجہ کہ موروثی قیادت پر پارٹی میں جلدی اتفاق رائے ہو جاتا ہے، اگر موروثی قیادت نہ آئے تو قیادت کے کئی امیدوار سامنے آ جاتے ہیں اور پارٹی ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے‘۔
’ مریم نواز نے خود کو لیڈر ثابت کیا ہے‘
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’مریم نواز نے اپنی بہادری سے اپنے اوپر اٹھنے والے تمام اعتراضات کو خاموش کر دیا ہے، مریم نواز نے اپنی بہادری سے خود کو لیڈر ثابت کیا ہے۔ پہلے مریم نواز کی قیادت کو لے کر پارٹی میں کچھ اعتراضات موجود تھے لیکن مریم نواز نے جس طرح اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا اب ان کی لیڈر شپ کے بارے میں پارٹی میں کوئی ابہام نہیں‘۔
’ پی ٹی آئی کی بنیاد ہی پروپیگنڈا ہے‘
عمران خان سے متعلق سوال پر خرم دستگیر کا کہنا تھا ’عمران خان حکومت میں اور حکومت سے باہر جلسے جلوس اور سوشل میڈیا کی شکل میں سیاسی ابلاغ مسلسل جاری رکھتے ہیں کیونکہ ان کو اکیسویں صدی میں ابلاغ کی اہمیت معلوم ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کی بنیاد ہی پروپیگنڈا ہے‘۔
’ن لیگ سوشل میڈیا پر کامیاب نہیں‘
خرم دستگیر نے اعتراف کیا کہ ’ان کی جماعت سوشل میڈیا پر اتنی کامیاب نہیں جس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ سوشل میڈیا پر کامیابی کے لیے آپ کو جھوٹ بولنا پڑتا ہے، جو جھوٹ نہیں بول سکتا وہ خسارے میں رہتا ہے۔ دوسرے معیشت، خارجہ تعلقات ایسے شعبے ہیں جن کے بارے میں نوجوان نسل کو سمجھانا بہت مشکل ہے‘۔ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’ہم سچ کو اتنی کامیابی سے مارکیٹ نہیں کر سکے جتنی کامیابی سے پی ٹی آئی جھوٹ کو مارکیٹ کرتی ہے‘۔
’ عمران خان کو پکے ثبوتوں پر پکڑیں گے‘
خرم دستگیر نے اعتراف کیا کہ ’ان کے حلقے کے عوام ان سے مہنگائی کا شکوہ کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس شکوے کے باوجود لوگوں کی محبت میں کمی نہیں آئی۔ گوجرانوالہ چونکہ ن لیگ کا گڑھ ہے اس لیے جب بھی حلقے میں جاتا ہوں لوگ پوچھتے ہیں کہ ’تسیں ایہنوں پھڑدے کیوں نئیں‘ ۔۔ (آپ عمران خان کو پکڑتے کیوں نہیں)‘۔ خرم دستگیر نے بتایا کہ ’وہ اپنے حلقے کے عوام کو جواب دیتے ہیں کہ پکے ثبوتوں اور بنیادوں پر عمران خان کو پکڑیں گے‘۔
’پی ڈی ایم جماعتیں متحد ہیں‘
خرم دستگیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’موجودہ حکومت مختلف سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے، جب کہ پیپلز پارٹی سے کچھ ایسی آوازیں آ رہی ہیں کہ وہ انتخابی سیاست کے دور میں داخل ہو رہے ہیں‘۔ خرم دستگیر نے کہا کہ ’اس وقت کابینہ کی سطح پر حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کی بھرپور حمایت مل رہی ہے‘۔
’ن لیگ اپنا ووٹ بینک دوبارہ حاصل کر لے گی‘
خرم دستگیر نے مسلم لیگ کے ووٹ بینک کے حوالے بتایا کہ ’ عام تاثر کے برعکس وہ مسلم لیگ ن کی انتخابات میں کامیابی سے متعلق بہت پرامید ہیں‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی فی الوقت مسلم لیگ ن سیاسی ابلاغ نہیں کر رہی، جونہی یہ سیاسی جلسے جلوس کرے گی یہ اپنا ووٹ بینک دوبارہ سے حاصل کر لے گی اور دوسرے میرے پُر امید ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف انتخابات سے پہلے پاکستان آئیں گے‘۔
’ سوئینگ ووٹ بہت بڑا کردار ادا کرے گا‘
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’اس بار سوِنگ ووٹ بہت بڑا کردار ادا کرے گا۔ سوئینگ ووٹ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے وقتی طور پہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ کو ضرور اپنی طرف کھینچا ہے لیکن اب ان کے یوٹرنز اور جھوٹ کی وجہ سے یہ ووٹ ان سے ہٹ رہا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ْعمران وقتی فائدے کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے‘۔
’ہم نے اس ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے‘
خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’انتخابات اسی سال اکتوبر میں ہوں گے‘ ۔ان کا کہنا تھا کہ ’بہت افواہیں پھیلائی گئیں کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے سال جولائی سے دسمبر کے درمیانی عرصے میں پاکستان نے ساڑھے 10 ارب ڈالر کے قرضے واپس کیے ہیں، ہم نے اس ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے‘۔
خرم دستگیر کے مطابق ’عمران خان کی حکومت نے پاکستان کی تاریخ کے 71 سالوں میں 90 فیصد زیادہ قرضے لیے۔ ن لیگ کی حکومت کے دور میں ہم سالانہ 1500 ارب روپے قرضوں کی مد میں واپس کر رہے تھے، جب کہ اس وقت ہمیں 3500،3600 ارب ہر سال واپس کرنا پڑتے ہیں جو عنقریب 4 ہزار ارب سے تجاوز کر جائیں گے۔ سو ان قرضوں کی واپسی کے لیے ہر سال پاکستانیوں کے جیبوں میں سے 2 ہزار ارب روپے سے زائد نکالے جا رہے ہیں۔
’جیل نہ جانے کی وجہ‘
اس سوال کے جواب میں کہ مسلم لیگ ن نے پچھلے ادوار میں بہت صعوبتیں برداشت کیں۔ ن لیگ کے بہت سارے قائدین جیل گئے لیکن آپ جیل نہیں گئے؟ خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’شاید میرا سیاسی کیریئر ابھی چھوٹا تھا، اس لیے جیل نہیں گیا‘۔
’ وزارت توانائی ایک بہت بڑا چیلینج ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے دیگر وزارتوں میں بھی کام کیا ہے لیکن سب سے زیادہ تجربہ بطور وزیر دفاع حاصل ہوا۔ بطور وزیر دفاع پاکستان کی سیاست اور حاکمیت کے متعلق سب سے زیادہ سیکھا‘۔ اپنی موجودہ وزارت کے بارے میں بات کرتے ہوئے خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’وزارت توانائی ایک بہت بڑا چیلینج ہے‘۔
’ فارمنس کی بنیاد پر میاں نواز شریف کے ساتھ ہوں‘
میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے سے متعلق خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’نوجوان نسل کو بتایا جاتا ہے کہ جمہوری حکومتیں چور ہیں، انہوں نے بیڑہ غرق کر دیا ہے، لوٹ کے کھا گئے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے 2013 سے 2017 تک اپنے دور حکومت میں اس سے الٹ ثابت کیا۔ 2013 میں اندھیروں اور خون میں ڈوبا ہوا ملک ملا تھا، میاں نواز شریف نے چار سال میں دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔ لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا۔ سی پیک شروع کرایا، کراچی کا مسئلہ حل کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قوم پرست جماعتوں کو صوبے میں حکومت دی۔ تو میں بنیادی طور پر فارمنس کی بنیاد پر میاں نواز شریف کے ساتھ ہوں‘۔