پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے 8 فروری کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کو ڈھونگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں الیکشن ہوں یا نہ ہوں مگر جس طریقے سے انہیں اور ان کی پارٹی کو عدم اعتماد کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، اس سے ایک چیز واضح ہو گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، سیکیورٹی ایجنسیاں اور سول بیوروکریسی پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
’عام انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے پر شک ہے‘
اڈیالہ جیل سے ’دی اکانومسٹ‘ کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہیں جو کہ آئینی طور پر غیرقانونی ہیں کیونکہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دن کے اندر عام انتخابات منعقد نہیں کرائے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ عوام سن رہے ہیں کہ انتخابات 8 فروری کو ہونے والے ہیں لیکن گزشتہ سال مارچ میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 3 ماہ کے اندر الیکشن نہیں کرائے گئے تھے، لہٰذا عوام اس بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے میں حق بجانب ہیں کہ عام انتخابات ہوں گے یا نہیں۔
Related Posts
عمران خان نے اپنے آرٹیکل میں الیکشن کمیشن پر پی ٹی آئی کے خلاف تعصب کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نہ صرف سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی بلکہ پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کیے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں رکاوٹیں ڈالیں، ان کے اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے خلاف محض الیکشن کمیشن پر تنقید کرنے کی پاداش میں توہین عدالت کے مقدمات بھی چلائے۔
’امریکی فوج کو اڈے دینے سے انکار کرنے کی سزا ملی‘
عمران خان نے امریکی سفارتکار کے پیغام کے ذریعے مبینہ امریکی مداخلت کی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا کہ اس نے امریکا کے دباؤ میں آ کر ان کی حکومت کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا، سائفر میں کہا گیا تھا کہ امریکی سفارتکار نے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو ختم کرنے یا نتائج بھگتنے کا پیغام دیا تھا، سائفر کے چند ہفتوں کے اندر ہماری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، مجھے پتہ چلا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے ذریعے ہمارے اتحادیوں اور پارلیمانی بیک بینچرز کو ساتھ ملا کر ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں۔‘
عمران خان نے کہا کہ وہ آزاد خارجہ پالیسی کی حمایت کر رہے تھے اور انہوں نے امریکی فوج کو اڈے دینے سے انکار کردیا تھا جس پر اسٹیبلشمنٹ مشتعل تھی اسی لیے انہوں نے ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے سیاسی انجینئرنگ کی۔ انہوں نے کہا، ’میں اس بارے میں مکمل طور پر واضح تھا کہ ہم سب کے دوست ہوں گے اور جنگوں کے لیے کسی کی پراکسی نہیں بنیں گے، میرے اس نقطہ نظر تک پہنچنے کے پس پردہ وہ 80 ہزار پاکستانی قیمتی جانیں تھیں جو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون کی وجہ سے ضائع ہوئیں۔‘
عمران خان کے الزامات پر دی اکانومسٹ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ حکومت پاکستان اور امریکی محکمہ خارجہ نے عمران خان کے پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کے الزامات کی تردید کی ہے۔
’سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کا ہر حربہ استعمال کیا گیا‘
عمران خان نے اپنی تحریر میں حکومت کی تبدیلی کے خلاف عوامی احتجاج، ضمنی انتخابات میں کامیابیوں اور نئی انتظامیہ کے تحت معاشی چیلنجز کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملوں، اغوا کے واقعات اور قانونی رکاوٹوں سمیت پارٹی کو پیش آنے والی مشکلات سے متعلق بھی بات کی۔
انہوں نے کہا، ’بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ مجھے دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس لیے مجھے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے تمام حربے استعمال کیے گئے۔ مجھ پر 2 قاتلانہ حملے کیے گئے۔ میری پارٹی کے رہنماؤں، کارکنوں اور سوشل میڈیا کارکنوں اور پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے صحافیوں کو اغوا اور قید کیا گیا، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پی ٹی آئی چھوڑنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ جیلوں میں ہیں۔ عدالتیں جب بھی انہیں ضمانت دیتی ہیں یا رہا کرتی ہیں تو ان پر نئے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ موجودہ نگران حکومت پی ٹی آئی کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور انہیں سیاست میں حصہ لینے سے روکا جا رہا ہے۔‘
’پاکستان مخالف سمت میں بڑھ رہا ہے‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے آگے بڑھنے کا واحد قابل عمل راستہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات ہیں جن کے ذریعے ملک میں سیاسی استحکام اور قانون کی حکمرانی کو واپس لایا جا سکتا ہے، جبکہ ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت ایک مقبول مینڈیٹ کے ساتھ ملک کے لیے ضروری اصلاحات کا آغاز کرسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے چھٹکارا پانے کا کوئی اور راستہ نہیں مگر بدقسمتی سے ملکی جمہوریت محاصرے میں ہے اور ہم مخالف سمت میں بڑھ رہے ہیں۔‘