بینائی سے محروم گل زمین خان آج ایک پُر سکون زندگی گزار رہے ہیں۔مالاکنڈ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے کا طویل سفر انتہائی تکلیف دہ، مشکلات اور آزمائشوں بھرا تھا۔
گل زمین خان نے دیر کے دور افتادہ پہاڑی علاقے کتیاڑی میں آنکھ کھولی۔ وہ پیدائشی طور پر صحت مند تھے۔ والدین تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود بھی بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے خواہش مند تھے۔ گل زمین نے گاؤں کے واحد پرائمری اسکول سے تعلیمی سفر کا آغاز کیا۔ پرائمری کے بعد گاؤں میں ہائی اسکول نہ ہونے کی وجہ سے خانپور کے اسکول میں داخلہ لیا۔ میٹرک کے بعد اگلے مرحلے میں سوات کے تاریخی جہانزیب کالج میں ایف ایس سی میں داخل ہوگئے۔ تاہم اس دوران ان کی زندگی اندھیرے میں ڈوب گئی اور وہ بینائی سے محروم ہو گئے۔
گل زمین خان کہتے ہیں یہ ان کی زندگی کے مشکل اور تلخ ترین لمحات تھے۔ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا کہ موروثی بیماری ہے، علاج ناممکن ہے۔
زندگی کے اس کٹھن موڑ پر گل زمین نے ہار نہیں مانی اور نہ ہی وہ مایوس ہوئے، بلکہ محنت کرکے زندگی میں اپنا ایک مقام بنانے کا عزم کیا۔
چھوٹی بہن کی بدولت تعلیم دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملا
بینائی سے محرومی اور گھر میں کوئی اور پڑھا لکھا نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ رک گیا تھا، اور زندگی ایک کمرے تک محدود ہو گئی۔ یہاں تک کہ تین سال کے کڑے انتظار کے بعد ان کی چھوٹی بہن نے میٹرک کیا تو گل زمین نے تعلیم کا روکا ہوا سلسلہ بہن کے ساتھ شروع کیا۔
میری چھوٹی بہن زور سے پڑھتی اور میں یاد کرتا تھا، گل زمین خان نے وی نیوز کو بتایا کہ چھوٹی بہن کی بدولت تعلیم دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملا۔سال 1990ء میں بینائی جانے سے انٹر نہیں کر سکا تھا جو بہن کی بدولت 1995ء میں مکمل کیا۔
وہ بتاتے ہیں اس زمانے میں عام طالب علموں کے لیے خاطر خواہ سہولیات نہیں تھیں۔ ایسے میں خصوصی بچوں کے لیے تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس زمانے میں کوئی آڈیو کیسٹ کی بھی سہولت نہیں تھی۔
اپنی کہانی سناتے ہوئے گل زمین کا کہنا تھا کہ انٹر پاس کرنے کے بعد اسلام آباد کا رُخ کیا اور وہیں خصوصی افراد کے لیے قائم ایک تنظیم نے ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کی، جو میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔
لوگ مایوس کن باتیں کرتے تھے
گل زمین خان کہتے ہیں ان کے آبائی علاقے میں اکثر لوگ ان کے سامنے مایوس کن باتیں کرتے تھے، مگر میں نے ایسی کسی بات پر دھیان نہیں دیا اور اپنی دُھن میں لگا رہا۔
اسلام آباد میں فلاحی تنظیم اور دوستوں کی مدد سے نصاب کے کتابوں کے آڈیو کیسٹس ریکارڈ کروائے اور پھر انہیں سُن کر یاد کیا۔ یوں تعلیم کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا۔ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ آسان نہیں تھا۔گل زمین کے مطابق یہ سب میرے لیے کانٹے دار راستہ تھا جس پر میں صبر اور استقامت سے آگے بڑھتا رہا۔
بیچلر کرنے کے بعد انگلش میں ماسٹر کرنے کا ارادہ کیا۔ گل زمین خان بتاتے ہیں کہ سال 1990ء میں انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا جب کہ ماسٹر کرنے میں جہاں چھ سال درکار ہوتے ہیں وہاں انہیں اس میں پندرہ سال لگے تاہم یہ مرحلہ بھی سال 2005ء میں مکمل ہوگیا۔
ماسٹر کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد ان کی مشکلات بھی کم ہونے لگی اور نئے مواقع بھی میسر آںے لگے۔ انھوں نے بتایا کہ جس یونیورسٹی سے انہوں نے ڈگری لی تھی وہیں انہیں لیکچرار شپ کا موقع مل گیا۔ وہ یہاں کئی سال پڑھاتے رہے۔
پی ایچ ڈی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے
بعد میں گل زمین نے مالاکنڈ یونیورسٹی میں لیکچرار کے لیے کوالیفائی کیا اور وہاں تعینات ہو گئے۔ وقت کے ساتھ زندگی میں کامیابیاں اور آسانیاں ملتی گئیں، لیکن گل زمین خان کہتے ہیں انہوں نے اپنی محنت اور تعلیم کا سلسلہ رکنے نہیں دیا۔مالاکنڈ میں تعیناتی کے بعد ایم فل مکمل کیا۔ اب جلد ہی ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر بھی لگنے والا ہے۔اس لیے کہ ان کا پی ایچ ڈی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
اب تو میرے لیے کوئی کام مشکل نہیں۔کہتے ہیں کہ وہ بھی اب ایک عام نارمل پروفیسر کی طرح پڑھاتے ہیں۔اب تو زمانہ جدید ہو گیا ہے، کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے سب کچھ آسان کر دیا کہ میں بھی نارمل انسان کی طرح پڑھا رہا ہوں۔
گل زمین خان کہتے ہیں کہ انہیں جب زندگی کے سخت وقت اور محرومی کے دن یاد آتے ہیں تب وہ جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور رو دیتے ہیں۔ لیکن شکر گزر ہیں کہ اللہ نے ان کی محنت کا صلہ عطا کیا۔
’بہترین استاد ایوارڈ‘
گل زمین نے سال 2009ء میں ’بہترین استاد ایوارڈ‘ حاصل کیا جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ اعزاز میری زندگی کا خوشگوار ترین لمحہ تھا جسے میں شائد کبھی نہ بھول پاؤں۔ اس اعزاز کو میں اپنی محنت، صبر، لگن اور کامیابیوں کا صلہ سمجھتا ہوں۔
بینائی سے محروم افراد کے لیے سہولیات:
خیبر پختونخوا میں بینائی سے محروم افراد کے لیے سرکاری سطح پر تعلیم مفت ہے۔جس کے لیے صوبے بھر میں تیرہ اسکول قائم ہیں۔پشاور میں بینائی سے محروم افراد کے لیے قائم اسکول کے پرنسپل محمد عارف نے وی نیوز کو بتایا کہ ان اسکولوں میں بچوں کی مکمل تربیت کی جاتی ہے۔انہیں ان اسکولوں میں ہاسٹل کی سہولت بھی میسر ہے۔
پرنسپل صاحب کے مطابق ہمارے اسکولوں میں بچوں کو تعلیم کے ساتھ روزمرہ زندگی کے حوالے سے بھی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ کسی کے محتاج نہ ہوں۔
بینائی سے محروم بیالیس ہزار افراد
انھوں نے بتایا کہ سرکاری اداروں میں ایسے بچوں کو پڑھائی سے لے کر ڈریس تبدیل کرنے اور واش روم جانے تک سکھایا جاتا ہے۔ اور اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنا کام آسانی سے خود کر سکیں۔
محمد عارف نے بتایا کہ اوسطاً صوبے بھر میں بینائی سے محروم افراد کی تعداد بیالیس ہزار تک ہے۔یہ ان افراد کی تعداد ہے جو مختلف سرکاری اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ جبکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ خصوصی اسکولوں میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تعلیم دی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں بینائی سے محروم بچے مستقبل میں عام بچوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل بن جاتے ہیں۔