باہر گرفتاریاں، اندر ریلیف: پشاور ہائیکورٹ میں کیا ہو رہا ہے؟

جمعہ 5 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان نے حلف اٹھانے کے بعد بار سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ اگر کسی کو ان کی ضرورت پڑی وہ رات 3 بجے بھی حاضر ہو جائیں گے، دو روز قبل ایسا ہی ہوا جب انہیں پہلی مرتبہ اسلام آباد سے پشاور آکر رات گئے عدالت لگانی پڑی اور پولیس پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

رخصت پر ہونے کے باعث چیف جسٹس محمد ابراہیم خان معمول کے مطابق مقدمات کی سماعت نہیں کر رہے ہیں اور گزشتہ روز اہم اجلاس کے لیے اسلام آباد میں تھے کہ اچانک اس وقت انہیں پشاور واپس آنا پڑا، جب راہداری ضمانت کے لیے ہائیکورٹ پہنچنے والی پی ٹی آئی کی رہنما زرتاج گل کی گرفتاری کے لیے پولیس نے ہائیکورٹ کا گھیراؤ کرلیا تھا۔

چیف جسٹس محمد ابراہیم خان رات 9 بجے کے بعد ہائیکورٹ پہنچ گئے اور عدالت لگائی، ایڈوکیٹ جنرل عامر جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر وہ انصاف نہیں کر سکتے تو دونوں کو مستعفی ہونا چاہیے، رات 11 بجے تک سماعت مکمل کرتے ہوئے انہوں نے زرتاج گل کی درخواست منظور کرکے پولیس کو ان کی گرفتاری سے روک دیا۔

کن سیاسی رہنماؤں کو پشاور ہائیکورٹ سے ضمانت ملی؟

وفاق میں پاکستان تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کے بعد پارٹی قیادت نے پشاور کا رخ کیا اور دیگر صوبوں میں بھی درج مقدمات میں راہداری ضمانت کے لیے پشاور ہائی کورٹ کا رخ کرنے لگے، بانی رہنما عمران خان نے راہداری ضمانت کے لیے جون 2022 میں پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس قیصر رشید نے عمران خان کی ضمانت منظور کرلی تھی اور 25 مئی کے لانگ مارچ پر اسلام آباد کے مخلتف تھانوں میں درج مقدمات میں راہداری ضمانت دے دی تھی۔

صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ دیگر پارٹی رہنما بھی پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرتے رہے ہیں، اسد عمر، شاہ محمود، حلیم عادل شیخ، اسد قیصر اور دیگر رہنماؤں کو بھی پشاور ہائی کورٹ سے ضمانت ملی تھی۔

ہائیکورٹ میں کونسے اہم کیسز زیر سماعت ہیں ؟

پشاور ہائیکورٹ میں اس وقت 2 لاکھ 80 ہزار سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں، جن میں لاپتہ افراد، سیاسی اور دیگر مقدمات شامل ہیں جبکہ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف اور ضمانتوں کے لیے بھی درخواستیں شامل ہیں، تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے خلاف کیسز بھی زیر سماعت ہیں۔

الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کرکے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا تھا، اس حکم کو بھی ہائیکورٹ میں چیلنچ کیا گیا تھا، ہائیکورٹ کی سنگل بینچ نے ابتدائی سماعت میں تحریک انصاف کی درخواست منظور کرکے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کرکے بلے کے نشان کو بحال کردیا تھا، تاہم اس فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل منظور کرکے اپنے ہی فیصلے کو واپس لے لیا۔

بلے کے نشان کے لیے کیس

تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے خلاف دائر درخواست بھی پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے بلے کے نشان کو واپس لینے کے خلاف درخواست دائر کی ہے، جس کی سماعت 9 جنوری کو ہائیکورٹ کا ڈویژن بینچ کرے گا، تمام سیاسی قائدین کی نظر اس کیس پر مرکوز ہے۔

‘پشاور ہائیکورٹ واحد امید ہے’

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر خان نے الیکشن کمیشن کے خلاف درخواست دائر کرکے موقف اپنایا تھا کہ انہیں پشاور ہائیکورٹ سے ریلیف ملنے کی زیادہ امید ہے اس لیے وہ پشاور ہائی کورٹ کا رخ کررہے ہیں، پشاور ہائی کورٹ سے ریلیف ملنے کے بعد پی ٹی آئی رہنما اب دیگر صوبوں سے بھی پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی مخالف جماعتوں کے وکلا ونگ سراپا احتجاج کیوں؟

پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو عبوری اور راہداری ضمانتیں ملنے پر سیاسی جماعتیں اور ان کے وکلا ونگ سراپا احتجاج ہیں۔ جے یو آئی، اے این وکلا ونگ نے پشاور ہائی کورٹ کے سامنے احتجاج کرکے عدالت پر جانبداری کا الزام لگایا۔ پشاور ہائیکورٹ کے سینئر وکیل یاسر خٹک نے وکلا کی جانب سے احتجاج کو سیاسی قرار دیا۔

وی نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ عبوری ضمانت ہر کسی کا حق ہے اور عدالت دیتی ہے، پشاور ہائیکورٹ میرٹ پر فیصلہ کر رہی ہے۔ ‘یہ عام سی بات ہے۔ جس کو عدالت سے ریلیف ملتا ہے وہ تعریف کرتا ہے اور جب کسی کو ریلیف نہیں ملے تو وہ عدالت کے خلاف ہو جاتا ہے۔’

کیا پشاور ہائیکورٹ صرف پی ٹی آئی کو ریلیف دے رہی ہے؟

قانون دان یاسر خٹک کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے بارے میں یہ تصور پیدا کرنا کہ ایک جماعت کو ریلیف دے رہی ہے سراسر غلط ہے بلکہ جس نے بھی رجوع کیا عدالت نے میرٹ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ ’عدالتیں آزاد ہیں اور دیگر سیاسی رہنما بھی ہائیکورٹ سے ریلیف لے چکے ہیں لیکن اس وقت تحریک انصاف زیر عتاب ہے اور ان کے خلاف کیسز زیادہ ہیں۔ ‘

کورٹ رپورٹر عثمان دانش نے بتایا کہ ماضی قریب میں پی ٹی آئی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی ضمانتوں کے لیے پشاور ہائی کورٹ آتے رہے ہیں اور ضمانتیں ملتی تھیں، ن لیگ کے کیپٹن صفدر، امیر مقام بھی مختلف کیسز میں ہائی کورٹ آتے رہے ہیں۔’اایک وقت عدالت نے نیب کو امیر مقام کی گرفتاری سے روک دیا تھا، اس وقت ہائی کورٹ مقدم ادارہ تھا اب جانبدار۔‘

پشاور ہائیکورٹ پولیس گھیرے میں کیوں؟

سیاسی مقدمات میں ضمانتوں کے باعث پشاور ہائیکورٹ جہاں ایک طرف سیاسی جماعتوں کے نشانے پر ہے وہیں گزشتہ کچھ دنوں سے پشاور کے ہائی سیکیورٹی زون میں واقع ہائیکورٹ کی عمارت کے اردگرد پولیس تعنیات ہے اور مخلتف مقامات پر ناکہ بندی کرکے سخت چیکنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعد تحریک انصاف کے روپوش رہنماؤں کی پشاور ہائی کورٹ آمد متوقع ہے جہیں گرفتار کرنے کی عرض سے سخت ناکہ بندی کی گئی ہے اور ہر آنے جانے والے کی سخت چیکنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

بدھ کے روز تحریک انصاف کی رہنما زرتاج گل اور ایمان طاہر پولیس سے بچ کر ہائیکورٹ داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی تھیں، ایمان طاہر کو عبوری ضمانت بھی مل گئی لیکن تحریری حکمنامہ نہ ہونے کے باعث پولیس نے انہیں ہائیکورٹ کے باہر سے ہی گرفتار کر لیا تھا جبکہ زرتاج گل رات گیارہ بجے تک گرفتاری کےخدشے کے پیش نظر ہائیکورٹ سے باہر نہیں آئیں۔

چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے زرتاج گل کی درخواست پر سماعت کے دوران پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایک خاتون کو گرفتار کرنے کے لیے اتنی پولیس تعینات ہے اور ہائی کورٹ کے گریڈ 22 کے افسر کو گیٹ پر تنگ کیا گیا۔

سینئر صحافی سجاد حیدر مرزا کے مطابق یہ پہلی بار ہے کہ ہائیکورٹ کی مکمل ناکہ بندی کی گئی ہے اور عدالت پہنچنے سے پہلے روپوش رہنماؤں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہاں تک کہ ججز گیٹ کے باہر بھی پولیس تعینات ہے۔

’ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، سب کو پتہ ہے سیاسی نوعیت کے کیسز میں ضمانت مل جاتی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو ہائی کورٹ کے احاطے میں داخلے سے پہلے ہی گرفتار کرنے کا منصوبہ ہے جس کے لیے بھاری پولیس تعینات کرکے پولیس کو عدلیہ کے مقابلے پر کھڑا کردیا گیا ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp