الیکٹڈ یا سلیکٹڈ، حقیقت کیا؟

اتوار 7 جنوری 2024
author image

محمد امین ڈھڈھی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج کل پاکستان میں انتخابی اتحاد بننے ،ٹوٹنے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معرکہ برپا ہے۔ کل کے حلیف اور آج کے حریف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے انہیں سلیکٹڈ اور ریجیکٹڈ کے خطابات سے نواز رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کے قائدمیاں نواز شریف فی الحال نظر انداز کرو اور صبر کرو کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ ماضی کے اتحادیوں بارے انتخابی ضرورت کے برعکس بڑے محتاط رویے کا اظہار اور مخالفانہ بیان بازی سے احتراز کیے ہوئے ہے۔

لیکن دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنما مسلم لیگ نون، بلخصوص میاں نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ وہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلہ پلس، سلیکٹڈ اور دیگر کئی القابات سے نواز چکے ہیں۔ کل تک ساتھ چلنے اور ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے رہنے والے آج اپنے اتحادیوں کے گندے کپڑے کیوں بیچ دوراہے دھونے پر تلے ہیں۔

بازی نہ جیتنے کا غم ہے یا دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی؟ بلاول کی سلیکٹڈ اور لاڈلا پلس کی تکرار سے قطع نظر میاں نواز شریف فی الحال معاملہ فہمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کے بقول ہی اگر میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہو گئی ہے تو پھر انہیں سندھ میں ایم کیو ایم جی ڈی اے، بلوچستان میں باپ اور مولانا فضل الرحمن سے اتحاد کی ضرورت کیوں ہوگی۔

پنجاب میں انہیں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کیا ضرورت تھی؟ اسٹیبلشمنٹ خود ہی سارا انتظام کر دیتی۔ جہاں تک میاں نواز شریف کے مقدمات سے بری ہونے کی بات ہے تو سیاسی مقدمات جس سپیڈ سے بنتے ہیں اسی سپیڈ سے ختم ہو جاتے ہیں۔ جب مقدمات قائم رکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تو قائدین ان سے بری ہو جاتے ہیں۔ کسی کو بھی اپنے دور حکومت میں بے بنیاد مقدمات میں الجھانا ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ رہا ہے جس سے نجات ضروری ہے۔

ہمارے جیسے سیاسی طور پر نوزائیدہ معاشروں میں اتحادوں کی سیاست دو دھاری تلوار ہوتی ہے جس میں بلیک میلنگ کلچر پھلتا پھلتا ہے۔ ہمارے ہاں انتخابی سیاست عوامی خدمت نہیں اپنی تجوریاں بھرنے اور فائدے سمیٹنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے سیاسی وزن رکھنے والے ملک اور پارٹی مفاد کی بجائے اپنے فائدے کی بات کرتے ہیں۔

میاں نواز شریف اپنے مقبولیت کو قبولیت میں تبدیل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے لیکن پارٹی کے اندر سے اس کے خلاف دبی دبی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں ۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے انہیں اپنے امیدواروں کی قربانی دینا پڑے گی جو بذات خود ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔

ہر مشکل میں جماعت کے ساتھ کھڑے رہنے والے چاہیں گے کہ انہیں قربانیوں کا صلہ ملے لیکن دوسری جماعتوں سے اتحاد کے باعث ایسا ہونا مشکل ہو جائے گا۔ جس سے پارٹی امیدواروں میں بددلی پھیلے گی اور وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود انتخابی اکھاڑے میں اتریں گے۔ اس سے مسلم لیگ ن کو نقصان اور مخالف فائدہ اٹھائیں گے۔ اس صورتحال سے کیسے بچنا ہے یہ قائدین کے لیے بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا ۔

اس تمام صورتحال میں ٹوٹ پھوٹ اور قیادت کے بحران سے دوچار پی ٹی آئی کے لیے دن بدن چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان پر قائم میں سے اگر ان میں سے کسی ایک مقدمہ میں بھی انہیں سزا ہو جاتی ہے تو ان کی پارٹی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ ان سنگین حالات میں پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟ عمران خان کا کیا بنے گا؟ نواز شریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہوگا؟ بیانیوں کا کیا بنے گا ؟

پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا مکان کا بیانیہ کام کرے گا ؟مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت دو اور سول بالادستی بیانیے پر قائم رہ پائے گی؟ یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے کہ بیانیہ کے بارے میں عمران خان کو دوسری پارٹیوں پر سبقت حاصل ہے۔ انہوں نے نوجوانوں میں اپنا بیانیہ ایسے بھر دیا ہے جو آسانی سے نکلنے والا نہیں اور لگتا ہے کہ بحرانوں کے باوجود ان کا بیانیہ کام کرے گا۔

آج جب کہ ملک میں سٹاک مارکیٹوں بلندی کی سطح کو چھو رہی ہے ،بیرونی دنیا کا ہم پر اعتماد بڑھ رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی کے اس تسلسل کو انتخابی رنجشوں اور آپسی لڑائیوں کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔ معیشت قومی سلامتی کا تقاضا ہے ۔ اس لیے تمام سیاسی و غیر سیاسی گروہ مل کر میثاق معیشت پر دستخط کریں۔ درآمداد میں کمی اور برآمدات بڑھائی جائیں۔ عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کم، بچتوں کو رواج ،اوورسیز ایمپلائمنٹ پر توجہ دی جائے۔ آمدنی بڑھانے کے لیے پاکستان کے پوٹینشل کو پوری طرح استعمال میں لایا جائے۔ دوسروں پر انحصار کی بجائے خود انحصاری کو پروان چڑھانا ہوگا۔ یہ مشن فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ کوتاہی کی تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp