بھٹو پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس: ایک جج کی رائے کو نظرانداز نہیں کرسکتے، چیف جسٹس

پیر 8 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بھٹو کیس میں بینچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے، ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر آرٹیکل 186 کے سکوپ پر معاونت طلب کی تھی۔ سپریم کورٹ نے کیس پر معاونت کے لیےعدالتی معاونین بھی مقرر کیے تھے۔

’جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی ریکارڈنگ موصول ہوگئی ہے‘

آج سپریم کورٹ میں مذکورہ ریفرنس پر سماعت کا آغاز ہوا تو عدالتی معاون مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا، اس عدالت کے سامنے اس مقدمے کا فیصلہ کا فیصلہ ہے جس کو دیکھنا ہے کہ وہ درست تھا یا غلط۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا، ’ہمیں جیو ٹیلیویژن سے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی ریکارڈنگ سربمہر لفافے میں موصول ہو گئی ہے۔‘ اس دوران رضا ربانی روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون ہیں؟

رضا ربانی نے جواب دیا کہ وہ عدالتی معاون نہیں لیکن بختاور اور آصفہ بھٹو کے وکیل ہیں، انہوں نے کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کرائی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے، اس درخواست کو دیکھتے ہیں۔

اس کے بعد عدالت معاون صلاح الدین احمد روسٹرم پر آئے اور دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ ان کی اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ ان کی معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر یہ بڑا سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ ذولفقار علی بھٹو کے ورثا کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ان کے والد ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود کے بھٹو کیس میں وکیل تھے، اگر میرے اوپر بھی کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پر کسی فریق کو اعتراض نہیں، آپ فئیر ہیں اس کا یقین سب کو ہے۔

چیف جسٹس نے احمد رضا قصوری کو بات کرنے سے روک دیا

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کمرہ عدالت میں سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا، انہوں نے کہا ذوالفقار علی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی۔

احمدرضا قصوری روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپکو انکی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔

مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو 4۔3 کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا۔

’اگر اس کیس میں عدالت نے کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہو گا؟‘

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہو سکتی۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر اس کیس میں عدالت نے کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہو گا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اس ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے انٹرویو کی کاپی بھیجی ہے، انٹرویو شاید ہارڈ ڈسک میں ہے، سربمہر ہے ابھی کھولا نہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت کی۔

’کاش میں اس انٹرویو کی وضاحت کرسکتا‘

عدالت میں جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو پلے کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سارا انٹرویو نہیں سن سکتے، متعلقہ حصہ سے انٹرویو چلایا جائے۔ وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں ساری چیزوں کی وضاحت کی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ  ان کی کتاب پہلے شائع ہوئی یا انٹرویو اس سے پہلے کا ہے؟

اس موقع پر احمد رضا قصوری بولے، ’میری خواہش ہے کہ کاش میں اس کی وضاحت کر سکتا۔‘

’صرف ایک انٹرویو کی بنیاد پر نہیں کہہ سکتے کہ ایسا ہوا تھا‘

جسٹس منصور علی شاہ نے اسفتسار کیا کہ ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے، کیا ہم نے صرف قانونی سوال کا جواب دینا ہے، کیا ہم نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تحقیقات بھی کرانی ہیں، کیا ہم ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کر رائے دے دیں، کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے، انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بینچ میں دیگر ججز بھی تھے، کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلا کر انکوائری شروع کریں، ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کر تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے اسفتسار کیا کہ یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں آخر قانونی سوال پوچھا کیا گیا ہے۔ اس موقع چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے، ’عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستگی دیکھ رہی ہے، عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ واحد نکتہ یہی ہے کہ اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بینچ آزاد نہیں تھا؟ جسٹس یحیی آفریدی نے بھی ریمارکس دیے کہ ایک جج کے انٹرویو سے پوری عدالت کے بارے یہ تاثر نہیں دیا جا سکتا کہ تب عدلیہ آزاد نہیں تھی، دوسرے ججز بھی تھے جنہوں نے اپنے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا۔

’آپ نے انٹرویو کی درست ریکارڈنگ پیش نہیں کی‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے، بھٹو کیس میں بنچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے، ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔

چیف جسٹس نے وکیل فاروق ایچ نائیک سے کہا کہ آپ نے درست ریکارڈنگ پیش نہیں کی، جس پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ یوٹیوب سے مین انٹرویو ہٹا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متعلقہ ادارے نے ہمیں انٹرویو دیا ہے ایسا کرتے ہیں اس کی کاپیاں بنا دیتے ہیں،  کاپی سے متعلقہ حصہ ہمیں دکھائیں۔

عدالت میں انٹرویو پلے کیا گیا مگر جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا متعلقہ حصہ نہ مل سکا جس پر عدالت نے ٹی وی سے موصول انٹرویو کی کاپی فاروق نائیک کو فراہم کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ آپ آئندہ سماعت پر اس انٹرویو سے متعلقہ حصہ ڈھونڈ لائیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وکیل فاروق ایچ نائیک سے مخاطب ہوئے، ’آپ نے ہمیں درست کاپی فراہم نہیں کی، یہ پریشر والی بات سے متعلقہ حصہ نہیں ہے۔‘

’سپریم کورٹ، پراسیکیوشن یا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، قصور وار کون؟‘

دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ بھٹو ریفرنس کا معاملہ وفاقی حکومت نے واپس نہیں لیا، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا، ’جی مجھے واپس لینے کی کوئی ہدایات نہیں۔‘

مخدوم علی خان نے عدالت سے کہا، ’یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے‘۔ چیف جسٹس بولے، ’کیا اس میں سپریم کورٹ قصور وار ہے یا پھر پراسیکیوشن اور اسوقت کا مارشل لا ایڈمسٹریٹر، سوال یہ ہے کہ تاریخ میں کتنے مقدمات کا ٹرائل ہوا اور کتنے ملزمان کو وعدہ معاف گواہ کے بنیاد پر سزا سنائی گئی؟‘

’ہمیں اپنی تاریخ کو درست کرنا چاہیے‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے، ’میری نظر میں ہمیں اپنی تاریخ کو درست کرنا چاہیے، دھبہ ایک خاندان پر نہیں لگا بلکہ اداروں پر بھی لگ چکا ہے۔‘

وکیل مخدوم علی خان بولے، ’آپ نے بالکل درست بات کی ہے۔‘

آج کی سماعت کا حکمنامہ

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے آج کی سماعت کے حکمنامے میں لکھوایا کہ رضا ربانی نے بتایا کہ وہ صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو زرداری کی نمائندگی کر رہے ہیں، زاہد ابراہیم فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر کی نمائندگی کر رہے ہیں، خواجہ حارث کے والد وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کے وکیل تھے، رضاربانی نے خواجہ حارث کے عدالتی معاون پر اعتراض اٹھا دیا اور خواجہ حارث نے خود کو بطور عدالتی معاون مقدمہ سے الگ کر لیا۔

عدالت نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف ریفرنس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp