اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے 13 مارچ کو سیشن عدالت میں پیش ہونے کاحکم دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان 13 مارچ کو بھی عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو ٹرائل کورٹ قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
فردجرم،سیشن عدالت نے بھی عمران خان کو13مارچ کوبلالیا
دوسری طرف اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بھی عمران خان کو 13 مارچ کوعدالت کے روبرو پیش ہونے کاحکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم 13 مارچ کو فرد جرم کے لیے پیشی یقینی بنائیں۔
اس سے پہلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست سماعت کی تو پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو 28 فروری کو توشہ خانہ کیس میں طلب کیا گیا تو اسی روز ان کو 3 دوسری عدالتوں میں بھی پیش ہونا تھاجس کے باعث وہ پیشی یقینی نہ بناسکے تو وارنٹ جاری کردیےگئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ عدالت اور کس طرح بلائے؟ قانون کو اپنا راستہ تو لینا ہی ہوتا ہےہمیں ایک تاریخ بتا دیں کہ کب پیش ہونا ہے میں ٹرائل کورٹ کو لکھ دیتا ہوں کہ عمران خان فلاں تاریخ کو حاضر ہوجائیں گے جس پر عمران خان کے وکلاء نے مشاورت کے بعد کہا کہ 4 ہفتوں کے اندر عمران خان عدالت میں پیش ہوجائیں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی حیرانی
عمران خان کے وکلاء کی جانب سے 4 ہفتے کاوقت مانگنے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے حیرت سے کہا کہ ہیں 4ہفتے؟ ۔۔۔ یہ کوئی کرنے والی بات نہیں ہے پھر ایسا کرتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کو کہہ دیتے ہیں کہ اشتہاری کی کارروائی کرے۔
عمران خان کے وکلاء نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہا کہ عمران خان کی 9 مارچ کو یہاں بھی پیشی ہے اس لیے ٹرائل کورٹ میں پیش ہونا مشکل ہوگا۔ جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہاں تو آپ کا کیس سہ پہر 3 بجے رکھا ہے مگر آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ کیا یہاں بھی پیش نہیں ہوں گے؟
عمران خان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان کو سنگین سیکیورٹی خطرات ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تو ہر روز سیکیورٹی تھریٹس کے لیٹر آ رہے ہیں تو کیا ہم کام بند کر دیں، بلکہ آئی جی نے بھی یہ بتایا کہ تمام ججز کو سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔
جس دن موت آنی ہے اسی دن آئے گی
عمران خان کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے عدالت سے بھی کہا ہے کہ وہ اپنے لیے بھی سیکیورٹی کے انتظامات کریں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان سے کہیں ہمارے لیے فکر مند نہ ہوں جس دن موت آنی ہے اسی دن آئے گی۔
علاوہ ازیں اسلام آباد کی سیشن عدالت نے منگل کو حکم دیا تھا کہ سابق وزیر اعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ہم فیصلہ سنا دیں گے۔
واضح رہے کہ آج صبح سیشن کورٹ میں جب عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کے مقدمہ کی سماعت ہوئی تو عمران خان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان بیمار اور معذوری کی حالت میں ہیں لہٰذا ان کی پیشی کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی جائے۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں جاری کیس میں اہم موڑ اس وقت آیا جب آج کی سماعت میں عمران خان کی جانب سے ایک نئے وکیل شیر افضل مروت پیش ہوئے جن کا عدالت نامہ ہی پیش نہیں ہوا تھا۔
وکیل بنا وکالت نامہ پیش
جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کس طرح اس کیس کی پیروی کررہے ہیں جب آپ کا وکالت نامہ ہی پیش نہیں ہوا ہے؟ اس کیس میں 5 سے 6 وکلا کے عدالت نامے پیش ہیں مگر ان میں سے آج کوئی بھی پیش نہیں ہوا ہے، جس پر وکیل شیر افضل نے کہا کہ وہ دو سے تین گھنٹوں میں عدالت نامہ پیش کردیں گے۔
عدالت نامہ نہ ہونے کے باوجود عدالت نے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عمران خان کے وکیل کو دلائل دینے کی اجازت دی۔
دلائل دیتے ہوئے وکیل شیر افضل ہوئے کہا کہ عمران خان بیمار ہیں اور اس وقت معذوری کی حالت میں ہیں اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ وہ ایک ہفتے کی مہلت دے دیں تو پھر عمران خان کا کچہری پیش ہونے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل آج کی کارروائی میں عدالت میں عمران خان نےوکیل نے بتایا تھا کہ انہیں عمران خان کی آمد سے متعلق علم نہیں لیکن قانونی ٹیم کچھ دیر کے بعد پیش ہوگی۔ جج نے دوبارہ استفسار کیا تھا کہ آپ کے پاس عمران خان کی کچہری پیشی کی کوئی معلومات نہیں ہیں؟
عمران خان کے ضامن کیوں پیش نہیں ہوئے؟
وکیل نے بتایا تھا عمران خان کی سینئیر قانونی ٹیم 10 بجے عدالت پیش ہوگی۔جج نے پوچھا عمران خان کے ضامن کیوں پیش نہیں ہوئے؟ جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ ضامن کو کیسے نوٹس کرسکتے ہیں؟ ابھی طریقہ کار مکمل نہیں ہوا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کی پیشی کا بروقت بتا دیا کریں۔ وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔عدالت نے سماعت میں دن 10 بجے تک وقفہ کر دیا تھا۔
جج نے اعتراض کیا کہ آپ کا وکالت نامہ پہلے آنا چاہیے تھا، بات بعد میں ہونی چاہیے۔ جج نے عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت کو وکالت نامہ جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ وکیل نے کہا 11 بجے عمران خان کی جانب سے وکالت نامہ جمع کرا دوں گا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت سے استدعا کی کہ ضامن کو عدالت نوٹس کرے اور شورٹی کینسل کرتے ہوئے سماعت 9 مارچ تک ملتوی کی جائے۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا عمران خان کے لیے اگلے ہفتے کچہری پیش ہونا آسان ہوگا۔ اس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ یعنی عمران خان نے 9 مارچ کو بھی سیشن عدالت پیش نہیں ہونا۔
عمران خان آج تک ذاتی طور پر پیش نہیں ہوئے
جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے وکیل نہیں آئے اس کا کیا کریں؟ میں نے انتظار بھی کیا کہ شائد اسلام آباد ہائیکورٹ کا کوئی فیصلہ آ جائے۔ اگر صورتحال یہی رہنی ہے تو کوئی فیصلہ کر دیتے ہیں۔ عمران خان آج تک ذاتی طور پر پیش نہیں ہوئے۔
محسن شاہنواز رانجھا نے عدالت سے استدعا کی کہ میں نے عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ 6 ماہ سے معاملہ چل رہا ہے۔ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ کیا کسی عام شہری کو بھی اتنی سہولت دی جاتی ہے؟ عمران خان کی جانب سے مسلسل استثنیٰ کی درخواستیں دائر کی گئیں اور انہیں استثنٰی بھی دیا گیا۔
قانون سب کے لیے برابر ہوگا
جج نے ریمارکس دیے کہ قانون سب کے لیے برابر ہوگا۔ قانونی تقاضوں کو پورا کرکے کیس چلایا جائے گا۔ان شااللہ قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
جج ظفر اقبال نے کہا کوئی ایسا کیس بتا دیں جو لمبے عرصے تک اس عدالت میں چلا ہو۔ عمران خان دیگر عدالتوں میں آئے لیکن سیشن عدالت نہیں آئے۔ ہر بار حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی گئی۔