جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک ایسے وقت میں افغانستان دورے کا آغاز کیا ہے جب پاکستان میں دہشتگردی کی لہر میں اضافہ ہوا ہے، ان کی افغان طالبان سے ملاقات کے دوران ہی ضلع باجوڑ میں دہشتگردوں نے پولیس کو نشانہ بنایا جس کے تانے بانے کسی نہ کسی طرح افغانستان سے ملتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت کے 9 رکنی وفد کے ہمراہ گزشتہ اتوار کابل پہنچے، جہاں ان کا سرکاری سطح پر استقبال کیا گیا، ترجمان جے یو آئی کے مطابق مولانا فضل الرحمن افغان حکومت کی دعوت پر کابل گئے ہیں، جہاں وہ افغان حکمرانوں کے ساتھ دہشتگردی کے معاملے پر بات کریں گے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ ہیں، جس کا بڑا سبب پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات ہیں جس کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں، تعلقات مزید اس وقت خراب ہوئے جب گزشتہ سال کے اواخر میں افغانستان سے چترال پر باقاعدہ حملے ہوئے، جن میں کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں نے پاکستانی حدود میں داخل ہوکر سیکیورٹی پوسٹوں کو نشانہ بنایا۔
پاکستان کی جانب سے احتجاج کے باوجود بھی اس نوعیت کے حملے نہیں رکے، گزشتہ ماہ ڈی آئی خان سیکیورٹی بیس پر حملہ ہوا، جس کی تحقیقات میں بھی کھرا نہ صرف افغانستان تک جا پہنچا، بلکہ مذکورہ حملے میں امریکی جدید اسلحہ استعمال ہونے کا انکشاف ہوا، جو امریکی انخلا کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ گئے تھے۔
سربراہ جےیوآئی مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ کابل پہنچ گئے ۔
جےیوآئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کی نائب وزیراعظم مولانا عبدالکبیر سے ملاقات
افغان وزیر خارجہ مولوی امیر متقی ، مولوی عبد الطیف منصور ودیگر موجود pic.twitter.com/EEoEmxDjYj— Jamiat Ulama-e-Islam Pakistan (@juipakofficial) January 7, 2024
افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات
مولانا فضل الرحمن نے امارات اسلامی افغانستان کے وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کی ہے۔ جے یو آئی میڈیا سیل کے مطابق افغان وزیراعظم نے پاکستانی علماء کے وفد کا خیرمقدم کیا۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد مولانا فضل الرحمن کا پہلا دورہ تھا، انہوں نے افغان طالبان کو مبارک باد بھی دی۔
مہاجرین کے ساتھ سلوک پر افغان وزیراعظم کا شکوہ
مولانا فضل الرحمن اور افغان وزیراعظم کے درمیان ملاقات کے حوالے سے جے یو آئی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے موقف اپنایا کہ ان کے دورہ افغانستان کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرناہے اور دونوں ملکوں کے سیاسی تعلقات، معیشت، تجارت اور باہمی ترقی میں تعاون کی راہیں تلاش کرنا ہے۔
وفد سے بات چیت میں ملا محمد حسن اخوند نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان سمیت کسی بھی پڑوسی ملک کو نقصان پہنچانے یا مسائل پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، مسائل کے حل اور غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے علماء کرام کا کردار اہم ہے۔
اس ملاقات میں ملا اخوند نے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے ساتھ روا سلوک پر سوال اٹھاتے ہوئے شکوہ کیا کہ ان کے ساتھ درست سلوک نہیں کیا جا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے رویے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مخالفت اور مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دونوں ممالک کو مل کر تمام مسائل کے حل کی راہیں تلاش کرنی چاہییں اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے مزید مسائل پیدا ہوں، ملاقات کے دوران افغان وزیر خارجہ مولوی امیر متقی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی یا اقتصادی لین دین کو سیاسی مسائل کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
افغان وزیر خارجہ مولوی امیر متقی نے افغان مہاجرین کے مسائل کے علاوہ افغان تاجروں کے مسائل، پاکستانی حکام کی طرف سے راہداری اور برآمدات میں پیدا ہونے والے مسائل کا بھی ذکر کیا جس سے ہر سال افغان تاجروں کو بھاری مالی نقصان ہوتا ہے ۔
مولانا کا دورہ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
سینئر صحافی علی اکبر خان افغان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں، وی نیوز سے گفتگو میں انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے دورہ افغانستان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ان کا دورہ اہمیت کا حامل ہے، وہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ تلخیوں کو کم کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
علی اکبر خان کے مطابق مولانا فضل الرحمن خود بھی دہشتگردی سے پریشان ہیں، خود ان کی گاڑیوں پر بھی فائرنگ ہوئی ہے اور باجوڑ میں پارٹی قیادت کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
’افغان طالبان مولانا کی عزت کرتے ہیں اور وہ ان کو مذاکرات کے میز پر لانے کے لیے قائل کر سکتے ہیں، بنیادی طور پر دیکھا جائے تو مولانا صاحب پیغام لے کر گئے ہیں اور پیغام لے جانے والے کی طالبان کے نزدیک اہمیت ہے۔‘
سینئر صحافی و تجزیہ کار محمود جان بھی مولانا کے دورہ افغانستان کو اہمیت کا حامل گردانتے ہیں لیکن ان کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ وہ جن کے ساتھ بات چیت کرنے گئے ہیں ان کے کون سے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کراسکتے ہیں۔ ’موجودہ حالات میں مولانا حکومت میں نہیں ہیں، پارلیمنٹ موجود نہیں اور مولانا کی اپنی پوزیشن بھی کچھ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔‘
Video: Acting Foreign Minister Amir Khan Muttaqi said that he hopes that the visit of the Pakistani delegation led by Maulana Fazl-ur-Rehman, the leader of Pakistan's Jamiat Ulema-e-Islam party, will have a good impact on relations between the two countries.#TOLOnews pic.twitter.com/oDdu48d8gu
— TOLOnews (@TOLOnews) January 7, 2024
کیا معاملات زیر بحث رہیں گے؟
صحافی علی اکبر خان کا خیال ہے کہ سیکیورٹی حالات اور دہشتگردی سب سے بڑا مسئلہ ہے جو پاکستان کو درپیش ہے، پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے، کچھ بڑے حملوں کی یوں تو کالعدم ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن ان کے تانے بانے افغانستان سے جا ملے۔
’جس پر پاکستان نے کئی بار افغان حکومت سے احتجاج کرتے ہوئے افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال بند کرنے کا مطالبہ کیا۔۔۔ مولانا فضل الرحمن افغان طالبان کے ذریعے ٹی ٹی پی سے بھی بات کریں گے۔‘
صحافی عارف حیات کے مطابق مولانا فضل الرحمن سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سمیت کچھ سخت گیر موقف اور فیصلوں پر بات کریں گے اور انہیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق موجودہ حالات کے تناظر میں فیصلے کرنے پر زور دیں گے۔
کچھ آفر کیے بغیر دہشتگری کو ختم کرنا ممکن نہیں
سینئر صحافی علی اکبر خان کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن افغان اور ٹی ٹی پی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت تو کر سکتے ہیں لیکن ان کو کچھ آفر کیے بغیر قائل نہیں کرسکتے، کالعدم ٹی ٹی پی کے مطالبات کی ایک طویل فہرست ہے جبکہ افغان طالبان بھی پاکستانی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔
’۔۔۔خاص طور پر افغان مہاجرین کی واپسی کے فیصلے کے بعد ان حالات میں وہ کچھ خاص آفر کے بغیر شاید مدد کے لیے تیار نہیں ہوں گے، ٹی ٹی پی کو کنڑول کرنا بھی آسان نہیں، اس کے لیے وسائل درکار ہیں، جس کا افغان حکومت مطالبہ کر سکتی ہے۔‘
ٹی ٹی پی کے مطالبات کیا ہیں؟
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں مقیم ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشتگردی اور خوف کا ماحول پیدا کرنے کے لیے سرگرم ہے، علی اکبر کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے مطالبات کی فہرست طویل ہے۔ عمران خان دور حکومت میں انہیں واپس لاکر آباد کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی، جس کے بعد وہ دوبارہ منظم ہونے میں کامیاب ہوئے۔
صحافی علی اکبر خان کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کی قبائلی اضلاع کا انضمام ختم کرکے فاٹا کی بحالی، ملک میں اسلامی نظام، ٹی ٹی پی قیادت کے خلاف کیسز ختم کرنے سمیت دیگر شرائط شامل ہیں، سوات اور قبائلی اضلاع میں ملٹری آپریشن کے دوران دہشتگردوں کا خاتمہ کیا گیا اور کچھ بھاگ کر افغانستان منتقل ہوگئے تھے جو دوبارہ واپس آنا چاہتے ہیں۔
کیا مولانا کو ریاست کی حمایت حاصل ہے؟
علی اکبر کا خیال ہے کہ دو ممالک کے درمیان پالیسی امور پر بات چیت ریاست کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں، مولانا فضل الرحمن مذہبی حلقوں میں اہمیت کے حامل ہیں اور افغانستان میں بھی، اور اسی وجہ سے انہیں افغانستان میں سرکاری سطح پر پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔
علی اکبر خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی ریاستی ادارے ہی دیکھتے ہیں۔ اور ان کی حمایت اور رضامندی کے بغیر کسی دوسرے ملک کا دورہ اور مذاکرات ممکن نہیں۔ ’ریاستی حمایت کے بغیر دورہ بے سود ہے، مولانا خود سے نہیں گئے بلکہ دعوت پر گئے ہیں، اور جن کا پیغام لے کر گئے ہیں، وہ بھی پرامید ہیں۔‘
کیا افغانستان دورے کا مولانا کو سیاسی فائدہ ہو گا؟
مولانا فضل الرحمن کا دورہ الیکشن کے لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے، وہ خود بھی دہشتگردی سے پریشان ہیں۔ تجزیہ کار علی اکبر کا کہنا ہے کہ مولانا کا دورہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے یہ الیکشن میں اہمیت کا حامل ہو گا، مولانا بھی جن کا پیغام لے کر گئے ہیں، ان سے بدلے میں کچھ مانگا ہو گا اور یقین دہانی کے بعد ہی گئے ہوں گے۔
’حالات سے لگ رہا ہے کہ الیکشن کے بعد بھی مولانا کی ضرورت پڑے گی، وہ اس ضمن میں یقیناً سیاسی طور پر فائدہ بھی ضرور اٹھائیں گے اور کریڈٹ لیں گے کہ امن کے لیے انہوں نے اہم کردار ادا کیا اور طاقتور اداروں کو بھی پیغام دیا ہے۔‘