2 روز قبل بلوچستان کے شمالی اضلاع جن میں زیارت، مسلم باغ، کان مہترزئی، پشین سمیت کوئٹہ کے پہاڑی سلسلوں پر برفباری کا سلسلہ شروع ہوا جو ایک روز تک جاری رہا جس کے بعد خون جما دینے والی سردی کا آغاز ہوگیا۔
وادی کوئٹہ کے باسی دیگر اضلاع کی طرح کوئٹہ میں بھی برفباری کا انتظار کرتے رہے لیکن آسمان سے روئی کے گالے نہ برسے۔ شہریوں کے مطابق برفباری کی پیشگوئی سنتے ہی انہوں نے اپنے دوستوں اور اہلخانہ کے ہمراہ سیاحتی مقام کی طرف جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا لیکن موسم نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رواں برس اب تک وادی کوئٹہ میں برفباری کیوں نہیں ہوئی۔
موسمیاتی تبدیلی کے بلوچستان پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، شفیق احمد
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ماہر ماحولیات شفیق احمد نے بتایا کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی نے اپنے اثرات مرتب کیے ہیں لیکن پاکستان بالخصوص بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی نے سب سے زیادہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں جس کی وجہ سے بارشیں اور برفباری نہیں ہو رہی اور خشک سردی کا راج ہے۔
Related Posts
انہوں نے کہاکہ ماضی میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی وادی کوئٹہ میں بھی برفباری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہتا تھا اور سردی کا دورانیہ 4 سے 5 ماہ ہوا کرتا تھا لیکن گزشتہ ایک دہائی سے برفباری کا سلسلہ اس طرح نہیں رہا۔
سب سے زیادہ برفباری 2017 میں ریکارڈ کی گئی
’دیکھا جائے تو سب سے زیادہ برفباری سال 2017 میں ریکارڈ کی گئی جس میں برفباری کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹا تھا لیکن اس کے بعد ہر سال برفباری کے سلسلے میں کمی واقع ہوتی رہی۔ رواں برس اب تک کوئٹہ شہر میں برفباری نہیں ہوئی جو اس بات کی علامت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب ہر گزرتے سال کے ساتھ اپنے اثرات صوبے پر مرتب کررہی ہے‘۔
شفیق احمد نے کہاکہ برفباری نہ ہونے کی وجہ سے موسم گرم سے گرم تر ہوتا جائے گا جس سے زمین، فصلوں اور آب ہوا کو نقصان پہنچے گا جبکہ کوئٹہ اور اس کے اطراف میں زیر زمین پانی کی سطح بھی کم سے کم تر ہوتی جائے گی۔
بلوچستان میں ماحول کو سازگار بنانے کے لیے کوئی گلیشیئر نہیں
انہوں نے کہاکہ برف کافی عرصہ تک پہاڑوں پر جمی رہتی ہے اور آہستہ آہستہ زمین میں سرایت کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی اضلاع میں کم برفباری کے باعث سال 2022 میں صوبے کو ایک بہت بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس میں قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کا نقصان بھی ہوا۔ صوبے بھر کے موسم کو برقرار رکھنے کے لیے برفباری کا ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ بلوچستان میں کوئی بھی گلیشیئر ماحول کو سازگار بنانے کے لیے میسر نہیں۔
بڑھتی آبادی کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، ڈاکٹر دین محمد
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ماہر ارضیات ڈاکٹر دین محمد نے وی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ کوئٹہ میں بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب آلودگی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔ ماضی میں زیارت سے ہربوئی تک وقفے وقفے سے برفباری کا سلسلہ جاری رہتا تھا اور یہ برف جون کے اختتام تک پہاڑوں میں جمی رہتی تھی جس کی وجہ سے سرد علاقوں کا موسم خوشگوار اور کاشتکاری کے حوالے سے وافر مقدار میں پانی موجود رہتا تھا۔
انہوں نے کہاکہ ماحولیاتی تبدیلی نے موسم کو بد سے بدترین کر دیا ہے، المیہ تو یہ ہے کہ اب برفباری ہو بھی جائے تو ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے یہ برفباری ایک ہفتہ سے زیادہ پہاڑوں پر نہیں رہتی، زیادہ عرصے تک پہاڑوں پر برف نہ رہنے کے باعث سردیوں کے پرندے بھی اب یہاں کا رخ نہیں کرتے جس سے ایکو سسٹم کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔
اوسط عمر بھی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے
ڈاکٹر دین محمد نے کہاکہ یہ پرندے پہاڑوں پر موجود درختوں اور جڑی بوٹیوں کے لیے بے حد مفید تھے لیکن اب ان پرندوں کے نہ آنے کی وجہ سے پہاڑوں پر موجود قدرتی جنگلات اور جڑی بوٹیاں تباہی کے دہانے پر آن پہنچی ہیں، ایسی صورت میں علاقے میں سانس، جگر، دل سمیت دیگر کئی بیماریاں نوجوانوں میں عام ہوتی جارہی ہیں جبکہ اوسط عمر بھی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔
ڈاکٹر دین محمد نے بتایا کہ کوئٹہ کے پہاڑوں پر برفباری کم ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بھی گرتی جارہی ہے جس سے قلت آب کا مسئلہ تو سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ وادی کی زمین بھی دھسنا شروع ہو گئی ہے
’ایک اندازے کے مطابق وادی کوئٹہ کی سالانہ 15 سے 18 سینٹی میٹر زمین دھسنتی جارہی ہے جو آنے والے وقت میں کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ ہماری سیاسی لیڈر شپ کو ادراک ہی نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔

















