ترکی کی ایک امدادی تنظیم نے آزاد کشمیر کے پہاڑی علاقے میں مقامی لوگوں کو امداد کے طور پر جلانے کے لیے لکڑی فراہم کی ہے۔ یہ ایک ایسے مرحلے پر فراہم کی گئی جب مقامی حکومت نے جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی لگادی ہے جبکہ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انہیں توانائی کے متبادل ذرائع میسر نہیں ہیں۔
اس تنظیم کے ایک عہدیدار انس گیوین نے ہالینڈ سے آزاد کشمیر کے ایک دور دراز علاقے چکار کا سفر کیا جہاں انہوں نے 170 خاندانوں میں ایک ایک من جلانے کی لکڑی فراہم کی۔ جن لوگوں کو لکڑی فراہم کی گئی ان میں بیوائیں اور یتیم بچے بھی شامل ہیں۔
لکڑی لینے والوں میں شامل ایک بزرگ خاتون رنگ زیبا بی بی نے کہا کہ ان کو لکڑی کی ضرورت تھی کیوں کہ انہیں جنگلات سے لکڑی کاٹنے نہیں دی جارہی ہے۔
امداد حاصل کرنے والی ایک اور خاتون نے بتایا کہ مہنگائی بہت ہے اور وہ بہت زیادہ غریب ہیں، مزید یہ کہ جنگل سے لکڑی کاٹنے کی اجازت نہیں تھی لیکن اس امداد سے ان کا فائدہ ہوگیا۔
Related Posts
گیس یا مٹی کا تیل خریدنا مقامی افراد کی استطاعت سے باہر ہے، یہی وجہ ہے کہ چولہا جلانے کے لیے ان کا انحصار جنگلات پر ہوتا ہے جبکہ سردیوں میں لکڑی کا استعمال بھی بڑھ جاتا۔ ایسی صورت میں جب جنگلات کی کٹائی پر پابندی ہے، ترک تنظیم نے غریب ؑلوگوں میں لکڑی تقسیم کی جو ان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
غیرملکی تنظیم سے لکڑی حاصل کرنے والی ایک اور خاتون نے کہا کہ ہم گیس استعمال نہیں کرسکتے کیوں کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘ہم ساون کے مہینے میں صرف چائے بنانے یا دودھ ابالنے کے لیے گیس استعمال کرتے ہیں ورنہ ہمیشہ ہی لکڑی کا استعمال کرتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگل میں لکڑی کاٹنے پر پابندی ہے اور جب عورتیں جنگل میں جاتی ہیں تو ان سے درانتی چھین لی جاتی ہے حالاںکہ وہ صرف جھاڑیاں ہی کاٹتی ہیں نہ کہ درخت۔
خاتون کا کہنا تھا کہ ہر چیز میں ہی مشکلات ہیں اور کوئی سہولت میسر نہیں، ایسے میں اگر جنگل سے لکڑی نہ کاٹیں تو پھر کھانا پکانے کے لیے چولہے کیسے جلائیں۔ انہوں نے کہا کہ تنظیم کی طرف سے ملنے والی لکڑی کی وجہ سے ان کا خاندان ایک ہفتہ سکون سے گزارے گا۔
آزاد کشمیر میں 80 فیصدی آبادی دیہاتوں میں آباد ہے جس میں سے بیشتر لوگ جنگلات پر ہی انحصار کرتے ہیں کیوں کہ وہ غربت کے باعث گیس یا مٹی کا تیل نہیں خرید سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگل میں لکڑی کاٹنے پر پابندی کے باعث ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
انس گیون کے پاکستانیوں کے لیے جذبات
ترکی کی امدادی تنظیم کے عہدیدار انس گیوین کا کہنا ہے کہ ضرورت مند خاندانوں کا پہلے سے تعین کیا گیا تھا جو 170 خاندانوں پر مشتمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترک بھائیوں کی طرف سے مدد ہے جس کے لیے انہوں نے ہالینڈ سے پاکستان کا سفر کیا۔ انس گیوین نے مقامی افراد کی جانب سے ملنے والے عزت و احترام سے متاثر ہوکر کہا، ’پاکستانی ہمارے بھائی ہیں اور ہم اپنے پاکستانی بھائی بہنوں سے بہت پیار کرتے ہیں‘۔