فری لانسرز کو درپیش رقم منتقلی کے مسائل، کیا پے پال سے معاہدہ سود مند ثابت ہوگا؟

بدھ 10 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ 30 لاکھ سے زائد آئی ٹی فری لانسرز اپنی خدمات بیرون ممالک مہیا کرتے ہیں لیکن اتنی ہنرمند افراد کے لیے بدقسمتی سے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں رقوم کی وصولی نہایت مشکل کام ہے، اگرچہ امریکہ سے ورچوئل بینک اکاؤنٹ کی سہولت فراہم کرنے والی کمپنی پے اونیئر کسی حد تک اس مسئلے کا حل فراہم کرتی ہے لیکن اس کے بھی اپنے مسائل ہیں۔

2010 سے مخلتف فری لانس پلیٹ فارمز پر اپنی خدمات فروخت کرنیوالے طاہر عمر کے مطابق مسابقت میں دیگر کمپنیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پے اونیئر اپنی من مانی کرتا ہے، جس میں ڈالر کا ریٹ کافی کم لگانے سے لے کر متعلقہ خدمات کے ضمن میں معاونت کا فقدان بھی شامل ہے۔

وائز نامی کمپنی نے حال ہی میں پاکستان میں رقم وصولی کی سروس نئے صارفین کے لیے ختم کردی ہے جس کی وجہ سے فری لانسرز کو مختلف ممالک سے رقم کی وصولی میں دشواری کا سامنا ہے، سیکنڈوں میں ممکن ٹرانزیکشن کے لیے پاکستان کے خراب معاشی حالا ت کی وجہ سے کئی کئی روز انتظار کرنا پڑتا ہے اس کے ساتھ ٹرانزیکشن کی مالیت کی حد بھی مقرر ہے۔

طاہر عمر کا کہنا ہے کہ فری لانسرز ٹیکس دینے کے حوالے سے ہمیشہ مثبت رویہ رکھتے ہیں لیکن ایف بی آر کا مشکل نظام، مبہم پالیسز ، بار بار دیگر نوٹسز کے ذریعے تنگ کرنے اور ڈرانے کی وجہ سے فری لانسرز کی قابل ذکر تعداد ٹیکس سسٹم میں رجسٹریشن سے ڈرتی ہے۔

بینکس کا رویہ بھی فری لانسرز کے لیے غیر سنجیدہ ہے

طاہر عمر نے بتایا کہ بینکوں کا رویہ بھی فری لانسرز کے لیے حوصلہ شکن ہے، بینک مینجر تنخواہ کی رسید طلب کرتے ہیں، بیشتر تو فری لانسنگ پلیٹ فارمز کو ماننے سے یکسر انکار کردیتے ہیں، جبکہ ایک نئے فری لانسر کی تو کوئی شنوائی ہی نہیں۔

’ایک بینک کے ساتھ تو مجھے ذاتی تجربہ بھی ہوا جب میں نے ان سے اکاؤنٹ کھولنے کی دوخواست کی تو انہوں نے میری آمدنی کا ثبوت مانگا، میں نے پاکستان سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ سے رجسٹریشن کا سرٹیفیکٹ پیش کیا، جسے پہلے تو  تسلیم نہیں کیا گیا پھر کافی بحث و مباحثہ کے بعد مان گئے۔‘

طاہر عمر کے مطابق اگرچہ کچھ بینکس نے فری لانسرز کے نام سے اکاؤنٹس کی کیٹگیریز بنا دی ہیں ، لیکن اس کے باوجود بھی ان بینک اسٹاف کی جانب سے غیر ضروری تنگ کیا جانا عام بات ہے، فری لانسرز کو اپنی ڈیجیٹل سروسز کے حوالے سے گوگل یا فیس بک اشتہارات کی رقوم بھیجنے پر بینکوں کی جانب سے مختلف نوعیت کی فیس چارج کی جاتی ہیں، جس سے بہت نقصان ہوتا ہے۔

’مثال کے طور پہ اگر ایک فیس بک ایڈ کے لئے ادائیگی کرنا ہو تو سب سے پہلے بینک ہائی کرنسی کنورژن ریٹس اپلائی کرتے ہیں ، پھر انٹرنیشنل ٹرانزیکشن چارجز اپلائی کرتے ہیں، پھر ایڈوانس ٹیکس اور ایف ای ڈیوٹی بھی عائد کردی جاتی ہے۔‘

فری لانسرز کی آسانی کے لیے حکومت کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ 

نگراں وزیر آئی ٹی کی جانب سے پاکستانی فری لانسرز کو یہ ’خوشخبری‘ سنائی گئی ہے کہ وہ جلد اپنے مغربی ممالک کے کلائنٹس سے بذریعہ پے پال ادائیگیاں وصول کر سکیں گے، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذرائع کے مطابق نگراں حکومت پے پال سے 11 جنوری کو معاہدہ کرنے جا رہی ہے۔

لیکن پے پال سے براہ راست ادائیگیاں نہیں ہوں گی، کیونکہ پے پال تھرڈ پارٹی ہوگی، اور تھرڈ پارٹی کے ذریعے ادائیگیاں بھی فری لانسرز کے لیے مفید ہوگا، پے پال پاکستان میں براہ راست سروسز کے بجائے پے اونیئر کے ساتھ شراکت داری سے کام کرے گا اور اس معاہدہ میں یہ بھی طے کیا جائے گا کہ فری لانسرز کو کیا سہولیات دی جائیں گی۔

کیا اس معاہدے سے فری لانسرز کو واقعی فائدہ ہوگا؟

حکومت کا پے پال سے متوقع معاہدہ کتنا کارآمد ہوگا؟ طاہر عمر کے مطابق پے پال کی پاکستان آمد سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ پے پال پے اونیئر کے ساتھ معاہدہ کرکے پے اونیئر میں انٹیگریشن دے گا، جس سے ان فری لانسرز کو تو کسی حد تک فائدہ ہوگا جن کے کلائنٹس پے پال کے علاوہ کسی پلیٹ فارم کے ذریعے پے منٹس کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

’۔۔۔لیکن تیکنالوجی کے کاروبار سے وابستہ وہ حضرات جو اپنی ای کامرس ویب سائٹس کو پے منٹ گیٹ وے کے طور پہ استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ نہیں کرسکیں گے، ڈیجیٹل کری ایٹرز جو افیلیئیٹ مارکٹینگ کرتے ہیں اور صرف پے پال کا آپشن موجود ہوتا ہے وہ اپنی وصولیاں نہیں کرپائیں گے۔‘

فری لانسرز کا موقف ہے کہ صرف ایک پے اونیئر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مزید کمپنیوں کو پاکستان میں متعارف کرایا جائے تاکہ مسابقت کی فضا قائم کی جاسکے اور صرف ایک کمپنی کی من مانی ختم ہو، حکومت فن ٹیک اسٹارٹ اپس کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ پاکستان ان کمپنیوں پر انحصار کے بجائے مسائل کا حل مہیا کرسکے۔

حکومت پے پال اور دیگر کمپنیوں کی ریگولیٹری تقاضوں کو پورا کرے تاکہ کمپنیوں کو پاکستان میں خطرہ محسوس نہ ہو کہ اگر دھوکا اور فراڈ ہوتے ہیں تو حکومتی قوانین کے تحت ایسے عناصر کو ڈھونڈنے میں نہ صرف ان کمپنیوں کے ساتھ تعاون کیا جائے بلکہ ایسے عناصر کے خلاف سخت قوانین کے تحت قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکے۔

وی نیوز سے گفتگو میں آئی ٹی ماہر تمجید اعجازی نے بتایا کہ پاکستان میں بینک تصدیق کے بغیر ادائیگیاں نہیں کرتے جبکہ باقی ممالک میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا، یہاں موصول ہونیوالی رقم وصول کرنے کے لیے فری لانسر کو بینک جانا پڑتا ہے جبکہ دیگر ممالک میں سب کچھ آن لائن ہی ہو جاتا ہے اور رقم آنے کے بعد تصدیق ہوتی ہے۔

’اس کے برخلاف پاکستان میں تصدیق ایک تو ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے اور دوسرا تصدیق کا عمل طویل اور ادائیگی سے قبل ہوتا ہے۔۔۔۔پے پال کا یقیناً فائدہ ہوگا، اور اس سے فرق نہیں پڑتا کے پیمنٹ براہ راست پے پال سے آئے یا پھر پے اونیئر کے ذریعے، اگر فری لانسرز پے پال سے رقم وصول کر سکتے ہیں اور اپنے پے اونیئر اکاونٹ میں بھی لا سکتے ہیں تو یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔‘

آئی ٹی ماہر تمجید اعجازی کے مطابق اصل مسئلہ رقم بھیجنے والے کو ہوتا ہے اگر اسے معلوم ہو کہ پے پال سے رقم بھیجی جا سکتی ہے تو پاکستان میں پھر وہ کیسے بھی وصول ہو اس سے فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ معاہدہ پاکستان کے نہ صرف فری لانسرز کے لیے بلکہ سافٹ وئیر ہاوسز کو بھی فائدہ پہنچائےگا۔

معاہدہ کس حد تک غیر مفید بھی ثابت ہوسکتا ہے؟

اس ضمن میں تمجید اعجازی کا کہنا ہے کہ پے اونیئر کے ذریعے رقم کی منتقلی تھوڑی سی غیر مفید اس زمرے میں ہو سکتی ہے کہ فری لانسرز کو ریٹ کنورژن چارجز دینا ہوں گے، کیونکہ پے پال جب غیر ملکی کرنسی کو روپے میں منتقل کرے گا تو وہ اپنا کمیشن رکھے گا، اسی طرح پے اونیئر جب فری لانسر کو رقم منتقل کرے گا تو وہ بھی اپنا کمیشن رکھےگا، یوں دو مرتبہ پیسے کاٹے جائیں گے۔

’۔۔۔یوں فری لانسر کے اگر 100 ڈالر آ رہے ہیں، تو اس میں سے 3 ڈالر پے پال رکھ لے گا، 2 ڈالر پے اونیئر رکھ لے گا، یوں فری لانسر کو پورے پیسے ملنے کے بجائے دو گنا کٹوتی کے بعد موصول ہوں گے، اسی طرح سافٹ ویئر ہاؤسز ہیں، اگر انہیں 20 ہزار ڈالر آ رہے ہیں تو انہیں اچھا خاصا نقصان ہوگا، اس حساب کتاب کے باوجود نقصان کم اور فائدہ بہت زیادہ ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp