23 اکتوبر 2023 کو سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک 5 رکنی بینچ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے حوالے سے مختصر فیصلہ جاری کیا جبکہ 13 دسمبر 2023 کو جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں ایک بینچ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔
اول الذکر جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے حوالے سے تفصلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس عائشہ اے ملک کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔
Related Posts
125 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے فیصلے کی ابتدا لارڈ ایٹکن کے 1941 کے ایک جملے سے کی۔
لارڈ ایٹکن نے اپنی مشہورزمانہ تقریر میں کہا تھا کہ برطانیہ میں بدترین جنگی حالات میں بھی قوانین خاموش نہیں تھے، برطانیہ میں بدترین جنگ میں بھی قوانین وہی تھے جو حالت امن میں تھے۔
آرمی ایکٹ کا سیکشن 167 جب نافذ ہوا تو ملک میں مارشل لا نافذ تھا
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کا ایک سیکشن 1967 میں اس وقت شامل ہوا جب ملک میں مارشل لا نافذ تھا، کرنل ریٹائرڈ ایف بی علی کیس میں جب سزائیں دی گئیں اس وقت ملک میں عبوری آئین تھا، اس کے علاوہ سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے جن قوانین کی مثالیں دی گئیں وہ ایک مقررہ مدت کے لیے تھے اور ان کی مدت 2019 میں ختم ہو چکی تھی۔ 9 اور 10 مئی کے 2 دنوں میں فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے، شہدا کے مجسموں کو نقصان پہنچا گیا اور کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں اعلیٰ حکومتی سطح پر یہ فیصلہ ہوا کہ ملوث ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلایا جائے گا، سب کی ایک ہی متحد آواز تھی کہ ایسے واقعات پر قانون حرکت میں آنا چاہیے، اس کے بعد مختلف تھانوں میں ایف آئی آرز درج ہونا شروع ہوئیں جبکہ فوجی حکام نے متعلقہ دہشتگردی کی عدالتوں سے رجوع کرکے متعلقہ ملزمان کی حوالگی مانگی جس کے نتیجے میں 103 ملزمان کو فوجی عدالتوں کی حراست میں دیا گیا۔
9 مئی کے ملزمان کا سول عدالتوں میں ٹرائل ہونا چاہیے، جسٹس یحییٰ آفریدی کا اضافی نوٹ
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ 9 مئی ملزمان کا سول عدالتوں میں قانون کے مطابق ٹرائل ہونا چاہیے کیونکہ ایسے کوئی شواہد نہیں کہ مظاہرین نے دفاع پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہو۔
ریاست کے تینوں ستونوں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، جسٹس عائشہ ملک کا نوٹ
جسٹس عائشہ ملک نے اپنےاضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ریاست کے تینوں ستونوں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے وہ ایگزیکٹو کے زیر اثر نہ ہو، آفیشل سیکرٹ ایکٹ مقدمات کا ٹرائل عام فوجداری عدالتوں میں ہی ہوتا ہے۔ 9 مئی کے گرفتار 103 ملزمان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں لگائی گئیں جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہ ہونے کے باوجود ملزمان کو عسکری حکام کے حوالے کرنے کی درخواستیں دی گئیں۔
9 مئی ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار خدیجہ شاہ ضمانت پر رہا
جسٹس عائشہ ملک نے لکھا ہے کہ متعلقہ مجسٹریٹ کو ملزمان کی حوالگی سے متعلق بامعانی فیصلہ دینا چاہیے تھا، اٹارنی جنرل نے ان ممالک کی مثالیں دیں جہاں سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے۔ جمہوریت اور آزادی کی خاطربہتر ہوتا کہ اٹارنی جنرل ان ممالک کی مثال دیتے جہاں ایسا نہیں ہوتا، اٹارنی جنرل نے تسلیم کیاکہ 9 مئی کے ملزمان عام شہری ہیں اور اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ 9 مئی کے بیشتر ملزمان بری ہو جائیں گے۔