تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا چیلنج اپنے پرانے انتخابی نشان کا دوبارہ حصول تھا، پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد پارٹی یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، تاہم اس کے بعد بھی کئی ایسے چیلنجز درپیش ہیں جن سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں قید ہیں، دوراقتدارمیں ان کا ساتھ دینے والے بیشتر افراد تحریک انصاف چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں شامل ہو چکے ہیں یا پھر یکسر سیاست کو ہی خیرباد کہہ چکے ہیں، اس بحران میں تحریک انصاف کی کمان وکلاء کے ہاتھ میں چلی گئی جس کے بعد تحریک انصاف کو وکلاء بار کی طرح نئے چینلجز کا سامنا ہے۔
جہاں ایک طرف سوالات اٹھ رہے ہیں کہ سینیئر رہنماؤں کے ہوتے ہوئے سیاسی میدان میں وکلاء کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے وہیں عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات میں امیدواروں کے ٹکٹوں کی تقسیم بھی تحریک انصاف کے لیے درد سر بن گئی ہے، ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے امیدواروں کے مابین اختلافات بھی سامنے آ گئے ہیں۔
’فیصلے صرف عمران خان کے چلیں گے‘
ٹکٹوں کی جنگ لڑنے والے امیدوار سیاسی میدان میں کیا کریں گے اور اس سب تماشے کا تحریک انصاف کی اندرونی سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟
اس حوالے سے رہنما پی ٹی آئی شعیب شاہین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے فیصلے عمران خان نے کرنا ہیں، ان کے پاس جو رپورٹس جیل میں آتی ہیں وہ اس حساب سے اپنے فیصلے کریں گے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ عمران خان ایک رہنما سے اختلاف کریں اور دوسرے سے انکار کردیں۔
Related Posts
’ٹکٹ دینے کا فیصلہ عمران خان اپنے تک پہنچنے والی رپورٹوں، لسٹوں اور فیڈ بیک کے مطابق کریں گے، ابھی تک امیدواروں کی فہرست فائنل نہیں ہوئی ہے تاہم جو حتمی فہرست سامنے آئے گی اس سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہو گا۔‘
پی ٹی آئی سے شیر افضل مروت کے کیا اختلافات ہیں؟ اس سوال کے جواب میں شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ مرکزی قیادت صرف ایک ہے اور وہ عمران خان ہیں، فیصلے صرف عمران خان کے چلیں گے چاہے وہ ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ ہو یا کوئی اور۔
عمران خان کے وکیل اور تحریک انصاف کے ممکنہ انتخابی امیدوار نعیم پنجوتھا کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں میں تقسیم ہوتی ہے، مسلم لیگ کے بہت سے لوگ رابطے میں ہیں کہ اگر ان کو ن لیگ سے ٹکٹ نہ ملا تو وہ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے، لیکن تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ نہ ملا تو وہ کسی اور جماعت کے ساتھ نہیں جائیں گے۔
’یہ عمران خان کا اپنا فیصلہ ہو گا کہ کس کو ٹکٹ دینا ہے‘
نعیم پنجوتھا کے مطابق ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے ان کی عمران خان سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے، یہ عمران خان کا اپنا فیصلہ ہو گا کہ کس کو ٹکٹ دینا ہے اور کس کو نہیں۔ ’لیکن ہر کسی کی خواہش ہےکہ وہ منتخب ہو کر اسمبلی میں جائے اور جمہوریت یہی ہے کہ سب کو موقع دیا جائے لیکن ٹکٹ ایک بندے کو ہی ملے گا۔‘
تحریک انصاف کے وکلاء عدالتوں سے زیادہ سوشل میڈیا پر متحرک کیوں ہیں؟ نعیم پنجوتھا کا خیال ہے کہ چونکہ سیاسی لوگ نہیں ہیں تو سوشل میڈیاپر بھی وکیلوں کو ہی پارٹی کی نمائندگی کرنا پڑتی ہے، اگر سیاسی رہنماؤں کو اغواء نہ کیا جاتا تو یہ سب نہیں ہوتا، اعتراض ان لوگوں کو ہوتا ہے جو پہلی بار وکلاء کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ عدالتوں میں کمزور ہیں۔
’بلے کا انتخابی نشان تحریک انصاف کو واپس ملنا جمہوریت کی جیت ہے‘
’عدالت میں وکیل کو کیسز کا دفاع کرنا ہے اور باہر آ کر لوگوں کو کارروائی سے آگاہ بھی کرناہوتاہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ایک طرف نواز شریف کو پروٹوکول مل رہا ہے اور ہمارے کیس بھی نہیں سنے جا رہے، آپ کے سامنے ہے کہ خان صاحب کی نااہلی والا کیس ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا اور الیکشن کے لیے نواز شریف کو بحال بھی کر دیا۔‘
بلے کا انتخابی نشان تحریک انصاف کو واپس ملنے کے ضمن میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ جمہوریت کی جیت ہے، ان کے مطابق اکبر ایس بابر جیسے لوگ ایسے موقعوں پر پلانٹ کیے جاتے ہیں اور عدالت کے ریمارکس بھی موجود ہیں کہ یہ پی ٹی آئی کا کیسا ممبرہے جو بدلہ لینا چاہتا ہے۔
’تحریک انصاف کی مقبولیت کا خوف ہے جو ایسے حملے کیے جا رہے ہیں، 8 فروری کو ہر طرف بلا ہی بلا ہوگا، عمران خان کو الیکشن سے پہلے جیل سے باہر نکلنا چاہیے لیکن ان کیخلاف مقدمات سنے نہیں جارہے اور نئے مقدمات میں نامزد کیا جا رہا ہے، ریاست نہیں چاہتی کہ عمران خان کسی صورت جیل سے باہرآئیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف نےانتخابی نشان تو حاصل کر لیا اب اندرونی اختلافات ان کے لیےکتنا بڑا چینلج؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار افتخار احمد نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کیا فیصلہ کرتی ہے اور جہاں تک پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کی بات ہے تو یہ کئی ارب روپے کا پراجیکٹ نظر آتا ہے کیونکہ جو باتیں باہر آ رہی ہیں اس سے محسوس ہو رہا ہے کہ ٹکٹوں کے لیے پیسے لیے جا رہے ہیں اور اگر یہ 800 نشستوں پر الیکشن لڑتے ہیں تو اندازہ کر لیں کہ یہ کتنا پیسہ اکھٹا کر سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کا اگلا مشکل ترین مرحلہ الیکشن کا دن ہو گا کیا وہ اس معرکے کو بھی سر کر لیں گے
افتخار احمدکا کہنا تھا کہ الیکشن کے معرکہ کی تیاری ہوتی ہے۔ اگر تحریک انصاف کا آرگنائزیشنل اسٹریکچر موجود ہے توان کے لیے کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ اور اگر آرگنائزیشنل اسٹرکچر نہیں ہے محض دوست اور مجمع ہے تو پھر اس معرکے کو سر کرنا کافی مشکل ہوگا ۔