جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے سے سپریم کورٹ میں کیا تبدیلیاں آئیں گی؟

جمعرات 11 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’پاناما کیس میں ایسا فیصلہ دیں گے جو صدیوں یاد رکھا جائے گیا‘۔ یہ ریمارکس تھے جسٹس اعجاز الاحسن کے جو پاناما مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے انہوں نے دیے تھے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جب اپریل 2017 میں نیب کو اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن مقدمات احتساب عدالت میں دائر کرنے کی ہدایت کی تو جسٹس اعجاز الاحسن کو اس کا مانیٹرنگ جج لگایا گیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر آج تک تنقید ہوتی ہے کہ مانیٹرنگ جج لگائے جانے کا تصور کسی آئینی یا قانونی شق میں موجود نہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ کے کسی اور فیصلے میں اس کی مثال ملتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن مستعفی ہو گئے

جسٹس اعجاز الاحسن جو سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھے اور موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں چیف جسٹس بننا تھا، لیکن اب ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ اس سال اکتوبر میں چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے۔

کام جاری نہیں رکھ سکتا

جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے استعفے میں وجوہات کا ذکر نہیں کیا تاہم انہوں نے لکھا ہے کہ وہ اس عہدے پر مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے۔

مظاہر نقوی کیخلاف کارروائی پر اعتراض

جسٹس اعجاز الاحسن، سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں چلنے والی کارروائی پر معترض تھے اور اس سلسلے میں ان کا لکھا گیا خط بھی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کارروائی میں غیر ضروری جلدبازی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بیٹے بالغ ہیں اور ان پر زائد آمدن کا مقدمہ نہیں چل سکتا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفے سے اگلے روز جسٹس اعجاز الاحسن مستعفی ہو گئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے سے سپریم کورٹ میں اہم تبدیلیاں

جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے کیساتھ ہی سپریم کورٹ میں اہم تبدیلیاں رونما ہو گئی ہیں۔ جسٹس منصورعلی شاہ آئندہ چیف جسٹس ہونگے۔ جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کرنے والے سپریم جوڈیشل کمیشن میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہو گئے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن اور 3 رکنی بینچ

جسٹس اعجاز الاحسن، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے قریبی ساتھی تھے اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ان کے بینچ میں زیادہ تر جسٹس اعجاز الاحسن شامل رہتے۔ جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ساتھ بھی اکثر کورٹ روم نمبر ون میں مقدمات کی سماعت کرتے، لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں چیف جسٹس سمیت جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتعمل 3 رکنی بینچ نے خاصی متنازع شہرت حاصل کی اور پاکستان مسلم لیگ نواز بار بار اس 3 رکنی بینچ پر تعصب کے الزامات لگاتی رہی اور مختلف مقدمات میں سپریم کورٹ کو درخواست بھی کرتی رہی کہ اس بینچ کو تبدیل کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے اسی  3 رکنی بینچ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں الیکشن التوا کیس میں ایسا فیصلہ سنایا ہے جو بعض ماہرین قانون کے مطابق ان کے لیے حیران کن ہے۔

الیکشن التوا کے معاملے پر پہلے 9 رکنی بینچ بنایا گیا تھا جو پہلے 7 رکنی ہوا اور پھر سکڑتے سکڑتے 3 رکنی تک پہنچ گیا، جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اخترپر مشتمل بینچ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی انتخابات کا سارا شیڈول بھی بنا کر دے دیا۔

اس کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تمام جماعتیں اس بات پر زور دیتی رہیں کہ سماعت کے لیے فل کورٹ یا لارجر بینچ بنایا جائے لیکن استدعا مسترد ہو گئی اور فیصلہ اسی 3 رکنی بینچ نے سنایا۔

3 رکنی بینچ کی آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح

آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے معاملے میں جب سپریم کورٹ کے سامنے ایک صدارتی ریفرنس آیا تو سپریم کورٹ کے 5 میں سے 3 ارکان نے 17 مئی 2022 کو ایک ایسا فیصلہ دیا جسے بینچ میں شامل دوسرے جج صاحبان اور وکلا نے آئین کو از سر نو لکھے جانے کے مترادف قرار دیا۔

اس مقدمے میں عدالت کے سامنے بنیادی قضیہ یہ تھا کہ آیا پاکستان تحریک انصاف کے وہ اراکین اسمبلی جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ ڈالے، کیا ان کے ووٹ شمار کیے جائیں گے  یا نہیں؟ اور کیا وہ بدستور ممبرانِ اسمبلی رہیں گے ؟ تو اس پر سپریم کورٹ کے اس 3 رکنی بینچ نے وہ فیصلہ دیا تھا کہ جس سے مذکورہ ممبران اسمبلی نہ صرف نااہل ہوگئے بلکہ ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے گئے۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب کی رولنگ کے خلاف فیصلہ

سپریم کورٹ کے اسی 3 رکنی بینچ نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی اس رولنگ کو خلاف قانون قرار دیا تھا جس کے تحت پاکستان مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے بطور پارٹی صدر ان کی ہدایت کے خلاف دیے گئے ووٹ مسترد کیے گئے تھے۔

اس عدالتی حکم نامے کے بعد حمزہ شہباز کی جگہ پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی چوہدری پرویز الہیٰ وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے تھے۔ اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ سے لارجر بینچ بنانے کی اپیل کی گئی تھی لیکن لارجر بینچ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسی 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا تھا۔

نیب قانون میں ترمیم کے خلاف درخواست کی سماعت

نیب قانون میں ترمیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست بھی اسی 3 رکنی بینچ نے سنی اور ترامیم کو کالعدم کیا جس فیصلے کو بعد میں معطل کر دیا گیا۔

آئندہ چیف جسٹس، جسٹس منصور علی شاہ کون ہیں؟

جسٹس منصور علی شاہ اکتوبر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنیں گے۔ وہ 2009 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے اور پھر 2016 میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے جہاں سے 2018 میں وہ سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس منصور علی شاہ نے صوبائی دارالحکومتوں میں موجود سپریم کورٹ رجسٹریوں کو سپریم کورٹ سے بذریعہ ویڈیو لنک منسلک کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے سائلین اور وکلا کو اب سپریم کورٹ اسلام آباد میں پیش نہیں ہونا پڑتا اور وہ بذریعہ ویڈیو لنک اپنی معروضات پیش کر سکتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کئی بین الاقوامی عدالتی فورمز کے اعزازی رکن بھی ہیں اور وہ عدالتی نظام میں جدیدیت کے قائل ہیں۔ عدالتی نظام کو ڈیجیٹل کرنے اور مصنوعی ذہانت کے استعمال میں ان کی کاوشیں شامل ہیں۔ انہوں نے نیشنل جوڈیشل اکیڈمی کے نصاب پر بھی کام کیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ اس نصاب کو بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ ایچ ای سن کالج لاہور سے تعلیم یافتہ ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ گالف کے شوقین ہیں۔

20 دسمبر 2023 کو جسٹس منصور علی شاہ نے بلوچستان میں حلقہ بندیوں سے متعلق درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ حلقہ بندیوں پر فیصلے سے انتخابات کا التوا خطرے میں پڑ سکتا ہے جو کہ جمہوریت کی نفی ہے اس لیے وسیع تر عوامی مفاد میں حلقہ بندیوں کی درخواستیں اگرچہ اہم ہیں لیکن انتخابات کے بعد بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp