کیا بلے کا نشان فائنل ہے؟

جمعہ 12 جنوری 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 2 ہی بنیادی کام ہیں۔ ایک ملک میں صاف شفاف الیکشن کا انعقاد اور دوسرا پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ کرنا۔ اگر وہ ان 2 بنیادی کاموں سے انحراف کرتا ہے تو اسے بنیادی آئینی ذمہ داریوں سے روگردانی سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی اور ادارہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کی راہ میں روڑے اٹکائے تو اسے مداخلت سمجھا جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی ذمہ داریوں اور قانونی تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک سیاسی جماعت کے الیکشن کو کالعدم قرار دیا مگر اس فیصلے کو ایک ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ختم کرتے ہوئے احکامات جاری کردیے کہ اسے انتخابی نشان الاٹ کیا جائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ جائز ہے یا یہ ایک مخصوص پارٹی کو ٹارگٹ کرنا سمجھا جائے۔ پی ٹی آئی کے پارٹی دستور میں باقاعدہ انٹرا پارٹی الیکشن کا پورا طریقہ کار وضع کیا ہوا ہے کہ پارٹی کے مرکزی عہدیدار کیسے منتخب ہونگے اور صوبائی عہدوں پر انتخابات کیسے منعقد کیے جائیں گے۔ سیدھی سی بات ہے پی ٹی آئی کے حالیہ انتخابات اس کے اپنے پارٹی دستور کے مطابق نہیں ہوئے جنہیں الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا گیا اور ای سی پی نے دونوں فریقین کو سننے کے بعد اپنا فیصلہ جاری کردیا کہ پارٹی عہدوں کا چناؤ وضح کردہ طریقہ کار کے مطابق نہیں ہوا۔ اس بنیاد پر اس سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔

پارٹی انتخابات میں دھاندلی پی ٹی آئی کی پرانی روایت ہے۔ اسے آج سے 10 سال پہلے بھی اسی طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جب مختلف سیاسی جماعتوں سے الیکٹیبلز کو توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کروایا گیا تھا تو پارٹی کے بانی اراکین نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم عمران خان نے سنہ 2013 میں ان تحفظات کو دور کرنے کے لیے پارٹی الیکشن کے انعقاد کا اعلان کردیا تھا۔ جب انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے تو وہی ہوا جن خدشات کا اظہار پہلے ہی پارٹی کے کچھ بانی اراکین کررہے تھے۔

جب پارٹی کے اندر ان انتخابات میں دھاندلی کا شور زیادہ ہوا تو عمران خان نے ان کو دور کرنے کے لیے جسٹس وجیہہ الدین احمد اور سابق بیوروکریٹ تسنیم نورانی پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی تاکہ پارٹی الیکشن میں لگائے گئی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرائی جاسکیں۔

کمیٹی کی تحقیقات میں جب دھاندلی ثابت ہوگئی اور جسٹس وجیہہ الدین نے اپنی رپورٹ پیش کی تو عمران خان نے بجائے اس پر عملدرآمد کرنے کے ٹال مٹول سے کام لیا۔ جسٹس وجیہہ، تسنیم نورانی اور اکبر ایس بابر بار بار عمران خان سے تقاضہ کرتے رہے کہ کمیٹی کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے لیکن عمران خان نے ان مطالبات کو نظر انداز کیا۔ نتیجتاً جسٹس وجیہہ جیسے با اصول شخص کو پارٹی کو خیرباد کہنا پڑا۔

بجائے اس کے کہ اپنے ماضی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں لگائے گئے الزامات کو سدھارتے اور پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کرواتے عمران خان نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہی کام انہوں نے حالیہ پارٹی انتخابات میں بھی کیا۔ بیرسٹر گوہر کو پارٹی چئیرمین نامزد کردیا اور پھر الیکشن کی بجائے سلیکشن کرکے الیکشن کمیشن کو بتادیا کہ یہ ہیں ہماری انٹرا پارٹی الیکشن کے نتائج۔

اس سلیکشن کو پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے چیلنج کردیا اور الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق اس پر اپنا فیصلہ دے دیا کہ پارٹی انتخابات پی ٹی آئی کے دستور کے مطابق نہیں ہوئے۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ دے کر اپنی آئینی اور قانونی ڈیوٹی نبھائی ہے اس میں نہ کسی جماعت کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور نہ یہ کوئی لیول پلیئنگ فیلڈ کا کوئی معاملہ ہے۔

اب کچھ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ صرف پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے نتائج ہی کیوں کالعدم قرار ہوئے؟ باقی سیاسی جماعتیں بھی تو اسی طرح کے ہی پارٹی انتخابات کراتی ہیں پھر ان کو غلط کیوں نہیں قرار دیا گیا۔ دراصل پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن اکبر ایس بابر نے چیلنج کیے کیونکہ یہ انکا Locus Standi یا مداخلت کا حق تھا بطور پارٹی کے بانی رکن کے اور الیکشن کمیشن نے ان کا یہ حق تسلیم کرتے ہوئے ان کی درخواست کو entertain کیا۔ اگر باقی سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن پر ان کے کسی رکن کو اعتراض ہو تو وہ بی الیکشن کمیشن سے رجوع کرسکتے ہیں۔

لیکن کیا ضروری ہے کہ کوئی متاثرہ شخص ہی پارٹی انتخابات کو چیلنج کرسکتا ہے؟ کیا الیکشن کمیشن خود سے اس پر کوئی ایکشن نہیں لے سکتا۔ الیکشن کمیشن کے پاس بھی سوموٹو نوٹس لینے کے اختیارات ضرور ہیں لیکن پارٹی انتخابات کے معاملے پر اس نے کبھی ان اختیارات کو استعمال نہیں کیا اور زیادہ تر اس بات پر انحصار کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی اعتراض کرے تو ہی ایسی کسی درخواست کو entertain کیا جائے۔

یہ بات عمران خان کو سوچنی چاہیے تھی کہ وہ ملک میں جمہوریت کی بالادستی کا پرچار کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں تو انہیں چاہیے تھا کہ اپنا house in order کرلیتے۔ کم از کم پہلے اپنی پارٹی کے اندر جمہوریت لاتے اور اختلاف رکھنے والوں کو اظہار رائے کی آزادی دیتے تاکہ کوئی دوسرا ان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ لیکن ہمارے تمام سیاسی رہنماؤں میں ذاتی طور پر آمریت اور دوسروں کے معاملات میں جمہوریت کی پاسداری کرانے کا رواج ہے۔

اس تمام بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کے جو آئینی فرائض ہیں ان کو دیکھا جائے تو بظاہر لگتا ہے کہ ای سی پی نے بالکل درست فیصلہ کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آیا پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کے بعد کیا عدالت عظمیٰ الیکشن کمیشن کے اس حق کو تسلیم کرلے گی اور اس کے فیصلے کو بحال کردے گی۔ میرے خیال میں تو سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے پارٹیز کو ریگولیٹ کرنے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp