نگران وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے برطانوی جریدے ’ دی اکانومسٹ ‘کو عمران خان کے ٹرول بریگیڈ سے تشبیہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کا اکانومسٹ کے مالکان سے خاندانی تعلق ہے۔
وی نیوز سے خصوصی انٹرویو میں نگراں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ جیل سے عمران خان کا ’گھوسٹ‘ آرٹیکل چھاپنے پر برطانوی جریدے کو نگران حکومت نے ابھی خط نہیں بھیجا مگر خط تیار ہے اور اس کی نوک پلک سنواری جا رہی ہے اور اسے حسب وعدہ ضرور بھیجیں گے۔
’ سابق چئیرمین پاکستان تحریک انصا ف (پی ٹی آئی )کے خاندانی تعلقات اس ملک کے اندر بھی ہیں اور ملک سے باہر بھی ہیں۔ ان کی سابق اہلیہ کی ایک بہن کی شادی ’دی اکانومسٹ ‘ کے مالکان کے خاندان کے اندر ہوئی ہے‘ ۔
نگراں وزیر اطلاعات کے مطابق ’دی اکانومسٹ‘ نے پی ٹی آئی کے ٹرول بریگیڈ کا سہولت کار بننے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دی اکانومسٹ ‘ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تاہم کسی بات کو خارج از امکان نہیں قرار دے سکتے۔
ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان کا مضمون چھپنے کے بعد ’دی اکانومسٹ‘ کے حوالے سے ٹویٹ کرکے انہیں جس تنقید اور ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد کیا انہیں پچھتاوا ہے کہ کاش ٹویٹ نہ ہی کرتے؟ جس پر نگران وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ ’ ہم نے جو درست سمجھا وہ ہی کیا اگر ’دی اکانومسٹ ‘ ایک سیاسی جماعت کے ٹرول بریگیڈ کی مددگار کے طور پر کام کرنا شروع کردے تو یہ اس ادارے کی اپنی عزت اور توقیر میں کمی ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کا کوئی بھی بڑا جریدہ یا میڈیا کا ادارہ یہ چاہے گا کہ اس کی غیر جانبداری پر حرف آئے یا دنیا کو ایسا لگے کہ وہ ایک خاص سیاسی جماعت کے ٹرول بریگیڈ کے طور پر کام کر رہا ہے؟‘
اس سوال پر کہ جیل سے تو ذوالفقار علی بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور عالمی رہنماؤں نے کتابیں بھی لکھی ہیں تو کیا جیل سے عمران خان کا مضمون لکھنا غلط تھا تو اس پر مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ جیل مینوئل کے مطابق عمران خان کے سنگین الزامات کی وجہ سے ان کو ایسی اجازت نہیں ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ انہوں نے جیل سے لکھا ہی نہیں ہے۔ ’ہماری تنقید یہ ہے کہ مضمون انہوں نے نہیں لکھا ہی نہیں وہ خود بھی مان چکے ہیں کہ انہوں نے ہدایات دی تھیں یا مصنوعی ذہانت استعمال کی گئی ۔‘
9 مئی پر قائم کابینہ کمیٹی کیا پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی سفارش تو نہیں کرے گی؟
گزشتہ دنوں 9 مئی کے واقعات پر قائم کی جانے والی کابینہ کمیٹی کی اچانک تشکیل کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ٹی او آرز میں واضح لکھا ہے کہ ہم کوئی ٹریبونل یا جج نہیں ہیں۔
ہم کسی کو سمن نہیں کریں گے ہم کسی کو سزا بھی نہیں دے سکتے۔ جو واقعات ہوئے 9 مئی کے وہ پورے ملک کے طول وعرض میں ہوئے۔ ان تمام مقدمات اور واقعات پر ایف آئی آرز ہیں جن کے تحت فوجی اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کیسز چل رہے ہیں ۔
کابینہ نے محسوس کیا کہ ہم کو ایک مجموعی تصویر بنانی چاہیے تاکہ ہم کو سمجھ آئے کہ یہ واقعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں یا نہیں؟۔ ان کے پیچھے کوئی ایک قوت ہے یا زیادہ ہیں اور یہ قوتیں ملک کے اندر سے ہیں یا بیرونی قوتیں ملوث ہیں ؟ اگر اندر ونی اور بیرونی قوتیں ملوث ہیں تو ان کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ مرکزی کردار کس کا ہے؟
مستقبل میں ایسے واقعات کو انتظامی اور قانونی طور پر کیسے روکا جائے؟
ہم 2 ہفتوں میں سفارشات حکومت کو پیش کر دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم مشورہ دیں کہ کوئی انکوائری کمیٹی بنائی جائے۔ ’یہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے اس کا مطلب کسی کو پکڑنا یا ٹانگنا نہیں ہے‘۔
اس سوال پر کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کمیٹی کا مقصد پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) پر پابندی لگانا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے خطرات کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں‘۔
سرکاری ٹی وی پر پی ٹی آئی چیئرمین کا انٹرویو بھی چلے گا
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے دور میں سرکاری ٹی وی میں خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگرامز میں سیاسی غیر جانبداری برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے اور تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کو برابر نمائندگی دینے کی کوشش کی ہے۔
’ہمارے منصوبوں میں شامل ہے کہ پی ٹی وی نہ صرف سب جماعتوں کو کوریج دے گا بلکہ الیکشنز کے دوران پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کے سربراہوں کے انٹرویوز بھی نشر کرے گا۔‘
صحافی سے وزیراطلاعات تک کے سفر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے زندگی میں مختلف کام کر رکھے ہیں انہیں ایک کردار سے دوسرے کردار میں جانے میں مسئلہ نہیں ہوتا۔ میں نے تھیٹر میں بھی کام کیا ہوا ہے جس میں مختلف وقتوں میں مختلف کردار ادا کرنا ہوتے ہیں۔