عام انتخابات کی آمد سے قبل بلوچستان میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے ایک جانب سیاسی رہنما انتخابات کے لیے اپنی الیکشن مہم کو مستحکم کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں دوسری جانب بڑے سیاسی کھلاڑی اہم شخصیات کے حق میں دستبردار بھی ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز سیاسی حلقوں میں سرگوشیاں تب بڑھیں جب صوبے کی بڑی قوم پرست سیاسی جماعت کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا حلقہ این اے 265 پر جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے حق میں دستبرار ہونے کی خبر سامنے آئی۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری اعلامیہ کے مطابق پارٹی سربراہ محمود خان اچکزئی نے جماعت کو ہدایت کی کہ وہ پشین سے قومی اسمبلی حلقہ این اے 265 پر ریٹرننگ آفیسر سے ان کے اور پارٹی کے متبادل امیدوار کے کاغذات نامزدگی واپس لے لیں۔ اعلامیہ میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے پارٹی کے مرکزی سیکریٹری نصاب ایاز خان جوگیزئی کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو مختلف سیاسی جماعتوں کیساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر کام کریں گی۔
واضح رہے کہ محمود خان اچکزئی نے پشین کے علاوہ چمن کم قلعہ عبداللہ اور کوئٹہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 263 پر کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پشتونخواملی عوامی پارٹی صوبے اور مرکز کی دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ بھی سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت اپنے امیدواروں کو مختلف حلقوں سے دستبردار کروا سکتی ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سینئر صحافی سید علی شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قیام کے بعد مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے درمیان قربت بڑھی ہے۔
مزید پڑھیں
ماضی میں پشتون علاقوں کے حلقوں پر جمعیت علماء اسلام اور پشتونخواملی عوامی پارٹی 50 سال ایک دوسرے کے مدمقابل رہی لیکن خیبر پختونخوا میں عمران خان کی بڑھی مقبولیت نے مولانا فضل الرحمان کو بلوچستان سے قومی اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔ تاہم پشتونخوا کے سربراہ کیساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے پشین سے قومی اسمبلی کے لیے مولانا فضل الرحمان کی کامیابی کے امکانات مزید روشن ہو گئے ہیں کیونکہ پشین پر ہمیشہ سے جمعیت علماء اسلام اور پشتونخوا کے درمیان کڑا مقابلہ رہا ہے۔
ایسے میں پشتونخوا کا مولانا فضل الرحمان کی حمایت کرنا جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کو باآسانی قومی اسمبلی میں پہنچا سکتی ہے اور اسی طرح صوبہ کی دیگر نشستوں جہاں جمعیت علماء اسلام کے امکانات بہتر ہیں وہاں جمعیت، پشتونخوا کی سپورٹ کرکے صوبائی اسمبلی میں 2 سے 3 سیٹیں دلواسکتی ہے۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کو اس بات کا ادراک ہے کہ جماعت میں 2 حصے بن جانے سے پشتون علاقوں میں ان کا سیاسی اثر و رسوخ کم ہوا ہے، تب ہی پی کے میپ مرکز کی بڑی سیاسی جماعتوں کیساتھ اتحاد کرکے ایوان کے لیے راستہ تلاش کررہی ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سینئر صحافی کفایت علی نے بتایا کہ گزشتہ کئی انتخابات میں پشتون آبادی پر مشتمل علاقوں میں 3 سیاسی جماعتیں برتری لے جاتی رہی ہیں، جن میں جمعیت علماء اسلام ’پشتونخواملی عوامی پارٹی‘ اور ’عوامی نیشنل پارٹی‘ شامل ہیں۔ ماضی کے انتخابات میں ان 3 سیاسی جماعتوں کے درمیان پشتون حلقوں میں کڑا مقابلہ دیکھنے کو ملتا تھا تاہم محمود خان اچکزئی کا مولانا فضل الرحمان کے حق میں دستبردار ہونا پشتون علاقوں کی سیاست میں ایک بڑی کروٹ ثابت ہوگی۔ محمود خان کا یہ فیصلہ آئندہ حکومت سازی میں بھی ایک اہم کردار ادا کرے گا۔