آغاز سفر مع زاد سفر

بدھ 8 مارچ 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 عمار مسعود مسکرائے اور کہا: ‘ہم (We) پہلا قدم اٹھا رہے ہیں’۔

قدم تو میں، آپ سب ہی اٹھاتے ہیں مگر یہ اجتماعیت کا پہلا قدم ہے۔ میں نے سوچا۔ اپنی ذات، اپنے مفاد اور خود اپنے سحر کے لذیذ ذائقے کی آہنی گرفت میں جکڑے ہوئے سماج میں یہ ایک مختلف قدم ہے۔ بس، اسی احساس نے میری روح کو معطر کردیا اور قریباً ایک صدی کے گرد دبی ہوئی ایک خوشگوار یاد نے سر اٹھایا۔

‘جواد میاں! دیکھیے آپ کے لیے یہ کیا آیا ہے۔’

جواد میاں کو جانے کتنے ہی دن اس آواز کا انتظار رہا پھر رفتہ رفتہ اس پر کچھ مایوسی غالب آئی۔ اس کے بعد لڑکپن کی الہڑ مصروفیات لیکن اس روز جب یہ آواز کوٹھی کے گیٹ پر ابھری تو اس نوخیز کا نخل تمنا ہرا ہوگیا۔ اس گھر میں جب ڈاکیا آتا تو خاموشی کے ساتھ ڈاک کسی نہ کسی کے ہاتھ میں دیتا اور پلٹ جاتا لیکن اس روز کیا خاص تھا کہ جواد میاں کو پکارا گیا؟ یہ ایک راز تھا۔

جواد میاں کسی قدر بے چینی اور بہت سے شوق کے ساتھ دوڑتے ہوئے ڈاکیے تک پہنچے اور اپنی طرف بڑھے ہوئے ان کے ہاتھ سے خاکی رنگ کا ایک لفافہ تقریباً جھپٹ لیا۔ اسی بے چینی سے لفافہ چاک کیا تو کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا اس میں سے برآمد ہوا۔ یہ ایک رسید تھی جسے دیکھ کر اس نوجوان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی اور ایک حسین یاد کروٹ لے کر مجسم ہوگئی۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب قراردادِ لاہور منظور ہوچکی تھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح برِصغیر کے طول و عرض میں قائدِاعظم کے لقب سے پکارے جانے لگے تھے اور ان کی مصروفیات میں ماضی کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا تھا لہٰذا وہ ہندوستان بھر کے طوفانی دوروں میں مصروف رہنے لگے۔ کچھ روز قبل علی گڑھ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس ہوچکا تھا جس کے بعد وہ کہیں اور جانے کے لیے رختِ سفر باندھے تیار کھڑے تھے۔ ان کی ایک کہنی موٹر کار کے کھلے دروازے پر ٹکی ہوئی تھی اور دوسرا بازو قریبی ستون پر۔ وہ الوداعی گفتگو میں مصروف تھے۔

یہ نواب موسیٰ کی کوٹھی تھی۔ نواب موسیٰ وہی بزرگ تھے جنہوں نے سر سید احمد خان کو علی گڑھ مسلم کالج کے لیے ایک وسیع قطع اراضی ہدیہ کیا تھا اور 1903ء میں برِصغیر کے مسلم زعما کا وہ اجلاس بلایا تھا جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ پس منظر تھا جس نے علی گڑھ کے اس بزرگ اور محمد علی جناح کے درمیان محبت کا اٹوٹ رشتہ قائم کردیا۔ یہی سبب تھا کہ وہ جب اس شہر میں آتے تو اکثر انہی کے ہاں قیام کرتے۔ قائدِاعظم نے گاڑی کے دروازے سے کہنی اور ستون سے ہاتھ بیک وقت اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھنے کا ارادہ کیا۔ عین اسی وقت جواد میاں آگے بڑھے اور انہوں نے ایک لفافہ مسافر کی طرف بڑھایا۔

‘یہ کیا ہے؟’

انگریزی میں دریافت کیا۔

مرزا جواد بیگ نے مجھے بتایا کہ قائدِاعظم نے جب اپنے مخصوص بھاری لہجے میں سوال کیا تو ایک ثانیہ تو میں خاموش رہا پھر حوصلہ مجتمع کرکے جواب دیا،

‘قائدِاعظم! یہ چندہ ہے۔ میری طرف سے۔’

‘قائدِاعظم نے مسکرا کر میری طرف دیکھا، ہاتھ بڑھا کر میرا کاندھا تھپتھپایا اور لفافہ شیروانی کی اس جیب میں رکھ لیا جو برِصغیر کے مسلمانوں کی فکر میں دھڑکتے ہوئے دل کے بالکل اوپر تھی۔’

یہ کہہ کر مرزا جواد بیگ نے اپنی آنکھیں مچمچائیں اور میری طرف دیکھ کر کہا کہ اس لفافے میں 10، 10 روپوں کے کڑکتے ہوئے 5 نوٹ تھے۔

‘آپ اندازہ کرسکتے کہ آج کے مقابلے میں ان 50 روپوں کی مالیت کیا ہوگی؟’

‘5 ہزار یا شاید اس سے بھی زیادہ۔’

میرے جواب پر وہ خاموش رہے پھر بتایا کہ یہ رقم دینے کے بعد وہ فکر مند ہوگئے۔ فکر یہ تھی کہ قائدِاعظم مصروف آدمی ہیں، ممکن ہے کہ انہیں یاد ہی نہ رہے کہ یہ رقم انہیں کس نے دی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دورانِ سفر وہ شیروانی اتاریں اور یہ لفافہ کہیں گر جائے یا کوئی نکال لے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب انہیں یاد رہے لیکن یہ لفافہ جیب سے نکال کر وہ کہیں رکھیں اور بھول جائیں۔

مرزا جواد بیگ بہت دن اسی ادھیڑ بن میں رہے پھر رفتہ رفتہ اس فکر پر نوجوانی کی مصروفیات غالب آگئیں لیکن اس روز جب انہوں نے وہ لفافہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ رسید انہی روپوں کی تھی جو انہوں نے قائدِاعظم کے ہاتھ میں دیے تھے۔ یہ صرف رسید نہ تھی، ایک دستاویز تھی۔

‘کیسے؟’

میں نے سوال کیا تو انہوں نے بتایا:

‘وہ ایسے کہ رسید پر لیاقت علی خان کے دستخط تھے، نوابزادہ لیاقت علی خان کے نہیں، اس لیاقت علی خان کے جو آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ سیکرٹری جنرل نے رسید کاٹتے ہوئے بھی کمال کردیا۔ انہوں نے رسید پر یہ لکھنا بھی ضروری سمجھا کہ مرزا جواد بیگ کی بھیجی ہوئی یہ رقم ان تک محمد علی جناح کے ذریعے پہنچی۔’

یہ تفصیل بیان کرکے مرزا صاحب ذرا سی دیر کے لیے خاموش ہوئے پھر کہا:

‘ایسے تھے ہمارے قائدِاعظم، ایسے تھے ہمارے بزرگ۔’

قائدِاعظم کی امانت، دیانت اور صداقت کے واقعات بے شمار ہیں لیکن یہ واقعہ تو حیران کن ہے کیونکہ اس سے ان کے مزاج میں گندھی ہوئی امانت اور دیانت جیسی خوبیاں ہی اجاگر نہیں ہوتیں بلکہ وہ احتیاط بھی سامنے آتی ہے جو وہ قومی مقاصد کے لیے جمع ہونے والے عطیات کے ضمن میں اختیار کیا کرتے تھے۔

قائدِاعظم کو کسی بچے کی طرف سے ملنے والے مالے عطیے کا یہ کوئی ایک واقعہ نہیں۔ ایک سابق وفاقی سیکرٹری ندیم شفیق ملک مرحوم نے اپنی ایک کتاب میں برِصغیر کے ہزاروں بچوں کے وہ خطوط جمع کردیے ہیں جو انہوں نے اپنے عطیات کے ساتھ قائدِاعظم کو لکھے اور جن کی رسید اور جواب بھی بانی پاکستان کی طرف سے انہیں ملا۔ مسلم لیگ کو ملنے والے عطیات کے سلسلے میں قائدِاعظم نے جو احتیاط روا رکھی، وہ ہمارے کے لیے مشعل راہ ہے۔

مرزا جواد بیگ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جن کی پرورش اور تربیت بانیانِ پاکستان ہی کی نہیں بلکہ قائدِاعظم جیسی شخصیت کی گود میں ہوئی۔ دلّی میں قیام کے دوران ان کے اور قائدِاعظم کے گھر کے درمیان گھر کے باہر لگائی جانے والے پودوں کی ایک باڑھ کا فاصلہ تھا۔ یہ باڑھ پھاند کر قائدِاعظم کے گھر کے احاطے میں کود جانا برسوں ان کا معمول رہا۔ ان سطور کا لکھنے والا خوش قسمت ہے کہ اسے مرزا صاحب جیسے بزرگ کی شفقت میسر رہی اور ان کی زبانی بانی پاکستان کی بے نظیر شخصیت کو جاننے اور سمجھنے کے مواقع میسر آئے۔

آزادی کے بعد گورنر جنرل کی حیثیت سے بابائے قوم کی قومی خزانے کے بارے میں احتیاط بھی حیران کن تھی۔ مرزا صاحب نے ایک بار مجھے بتایا کہ قیامِ پاکستان کے کچھ دنوں کے بعد قائدِاعظم نے محترمہ فاطمہ جناح اور مجھے طلب کیا اور کہا کہ ملک الحمدللہ بن چکا ہے لیکن ہم آج ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ نوجوانوں کو منظم کرنے کا کام ابھی سے شروع کردیا جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ کام فاطمہ کی نگرانی میں ہو اور تم ان کی معاونت کرو۔ انکار کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا فوری طور پر آل پاکستان مسلم یوتھ لیگ قائم کرکے کام شروع کردیا گیا۔ یہ نام بھی خود قائدِاعظم ہی کا دیا ہوا تھا۔ وہ اس تنظیم کے کام کے سلسلے میں پیشرفت کی رپورٹ خود لیا کرتے تھے۔ یہ کام صبح ان کے دفتر کا سرکاری وقت شروع ہونے سے پہلے کیا جاتا تھا۔ مزرا صاحب نے مجھے بتایا کہ تنظیم کے قیام کے فوراً بعد ہی پہلے اجلاس میں ہمیں ایک حیرت انگیز سبق ملا۔

‘قائدِاعظم کے آنے سے پہلے ہی ہم ان کے دفتر پہنچ گئے۔ اس وقت ہمارے ہاتھ میں گورنر جنرل ہاؤس کی اسٹیشنری تھی تاکہ اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے نوٹس لیے جاسکیں۔ قائدِاعظم پہنچے تو ان کی پہلی نظر ہی ہمارے ہاتھوں میں موجود اسٹیشنری پر پڑی اور انہوں نے نہایت خفگی سے سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ پھر اجلاس یہ کہتے ہوئے ملتوی کردیا کہ جب اپنی اسٹیشنری کا انتظام ہوجائے تو رپورٹ دینے آجانا۔’

سرکاری اخراجات میں احتیاط کا ایک اور واقعہ بھی مرزا صاحب نے مجھے سنایا۔ گورنر جنرل کے دفتر میں اس زمانے میں کال بیل ایسی تھی جس کی آواز باہر بیٹھے چپڑاسی تک نہیں پہنچتی تھی۔ اس مشکل کی وجہ سے کام کا بہت ہرج ہوجاتا تھا۔ فیصلہ ہوا کہ بجلی کی گھنٹی لگائی جائے۔ گورنر جنرل ہاؤس کے انجینئر سید جعفر علی کی کوشش تھی کہ کام رات کے کسی پہر شروع کرکے صبح قائدِاعظم کے آنے سے پہلے ختم کردیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ قائدِاعظم پہنچے تو جعفر صاحب نے کام کرنے والوں کو رخصت کردیا۔ انہیں جاتا دیکھ کر قائدِاعظم نے دریافت کہ انہیں چھٹی کیوں دی گئی ہے۔ بتایا گیا کہ ان کے کام کی وجہ سے آپ کو زحمت ہوگی۔ قائدِاعظم نے جواب دیا کہ میری زحمت کو چھوڑیے، کام وقت پر مکمل کرائیے۔ یہ درست نہیں کہ میری وجہ سے ایک دن کا کام کئی دنوں تک بڑھ جائے اور اس کا بوجھ قوم برداشت کرے۔

عمار مسعود کی زیرِ قیادت ‘We’ کے پہلے قدم سے میرا خیال اس سفر تک پہنچا جس کا نتیجہ پاکستان جیسی نعمت کی شکل میں میسر آیا پھر خیال آیا کہ ‘We’ کا سفر تو ایسی ہی آرزوؤں کا سفر ہے کیوں نہ زاد سفر میں اپنے بزرگوں کا اثاثہ بھی شامل کرلیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp