قائم دین، قائم رہنا

پیر 15 جنوری 2024
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

قائم دین کا تعلق سندھ سے ہے۔ اس کا مجھ سے بھی ویسا ہی تعلق ہے جیسا کہ سندھ سے۔ میں بھی اس کے لئے ویسا ہی محسوس کرتا ہوں جیسا کوئی اپنے کسی سگے کے لئے کرتا ہے۔ ہمارا باہمی طور پر کوئی بھی مفاد مشترک نہیں۔ بس اس نے بغیر کسی وجہ کے اپنے بڑے کا درجہ دے رکھا ہے۔ میں بھی ایک دہائی سے اس رشتے کی لاج رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

وہ  گزشتہ کئی برسوں سے  مختلف نمبروں سے  کبھی کبھی فون کرتا رہتا۔

2010 کی بات ہے مجھے  ایک زرعی ادویات بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ  بطور ٹرینر کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ موقع کیسے ملا یہ بھی پورا ایک قصہ ہے۔ پہلے  مرحلے  میں  فروری کے مہینے میں  پنڈی بھٹیاں کے ٹاہلی والا سے روجھان مزاری تک پوری ٹیم کے ساتھ گاؤں گاؤں گیا۔  اکثر شہر کے ہوٹلوں میں رات کو قیام کرتے۔ ٹیم اپنے سُپروائزر کے ہم راہ گزارہ کرتی جب کہ مجھے وہ اپنی طرف سے بہتر ہوٹل میں ٹھہراتے۔ کسی شام وہ جھجکتے ہوئے پوچھتے کہ  زمین دار یا ڈیلر کے ڈیرے  پر بھی سونے کی  پیش کش ہے اگر آپ کو کوئی مسئلہ نہیں تو ادھر ہی بسیرا کر لیں۔  یوں  کسی گاؤں میں ہی بسرام ہو جاتا۔

اگلا دورہ اک دوسری  پروڈکٹ  “طالسٹار “کی پروموشن  کے لئے تھا۔  یہ پراڈکٹ کپاس کے کاشت کار استعمال کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں اس کے ٹی وی ریڈیو پر بہت اشتہارات  چلتے تھے۔  بہر حال  دوسرا مرحلہ  شدید گرمیوں میں طے شدہ تھا۔ میرا جانے کا موڈ نہیں تھا۔ پہلے مرحلے میں ملنے والا معاوضہ  میری ماہانہ آمدنی سے پانچ چھ گُنا زیادہ  تھا۔ جب دوسری دفعہ آفر کئی گُنا زیادہ تھی مگر پھر بھی میرا ارادہ نہیں بن رہا تھا۔ میرے عزیز دوست خالد فاروقی صاحب روزنامہ آواز لاہور کے ایڈیٹر ہیں، ایک  شام ان کے دفتر بیٹھا تھا۔ باتوں باتوں  میں اس پراجیکٹ کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے ضرور جائیں۔ پہلے بھی آپ کو لوگوں اور علاقے کو جاننے کا بہت اچھا موقع بھی ملا اور پیسے بھی۔ جنوبی پنجاب کے رہنے والوں سے زیادہ آپ نے وہ علاقہ پھر لیا ہے۔ اب بھی یہ موقع ضائع نہ کریں ۔

بہرحال میں دوسرے مرحلے میں بھی ٹیم کے ساتھ چلا گیا۔ بہاول پور سے شروع کیا ہوا سفر حیدر آباد تک جاری رہا۔ کشمور سے جب سکھر گئے تو 2 مقامی مدد گار ہمارے ساتھ  ہو لیے۔ ایک تو میری وساطت سے میرے دوست سید عابد کاظمی صاحب کے گاؤں مدیجی، شکار پور سے اور دوسرا بھی  نواحی علاقے سے آن ملا۔ دوسرا قائم دین تھا۔ محنت سے کام کرنے والا۔ ہنس مُکھ او ر سادہ دل۔ میں اس کی کُھلی ڈُلی طبعیت  اور انداز و اطوار کی  وجہ اسے “لاکھا “کہتا تھا۔  اس نے بھی کُھلے دل سے اس نام کو قبول کر لیا تھا۔

اب بھی وہ  فون کرتا ہے تو کہتا  ہے، “سر جی آپ کا لاکھا بات کر رہا ہوں”

وہ  ہمیشہ اپنی  مصروفیات سے گاہے بگاہے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ “ابھی میں کراچی میں ڈرائیوری  کر رہا ہوں” ۔۔۔ “ابھی سر گاؤں میں فصل کاٹ رہا ہوں” ۔۔۔ “آج کل فارغ ہوں، سر جی اُدھر کوئی کام نہیں ملتا؟” ۔۔۔۔ “سر جی میری شادی ہوگئی ہے” ۔۔۔ “سر جی آپ کا لاکھا باپ بن گیا ہے” ۔۔۔ “اکمل سر ، میرا باپ  فوت ہوگیا ہے”

بس ایسی ہی لاکھے  کی باتیں ہوتی ہیں۔  کبھی اُس نے اشارتاً بھی  پیسے نہیں مانگے۔ ڈیڑھ دو سال قبل جب ملک میں سیلاب آیا تو سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ شکار پور بھی انھی علاقوں میں سے تھا جہا ں سیلاب نے تباہی مچا دی تھی۔ ایک ہوتا ہے سیلاب تبا ہی مچا کر گزر جاتا ہے اور آہستہ آہستہ زندگی بحال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ مگر یہ والا سیلاب بہت نا مراد تھا۔ نہ صرف تباہی کا دائرہ کا ر وسیع تھا بل کہ لمبا عرصہ پانی کھڑا رہا۔

قائم دین کا مکان بھی گِر چُکا تھا۔ نہ جانے کتنے دن انھوں نے کُھلے  آسمان تلے گزارے۔ وہ جب بھی مجھے صورتِ حال بتاتا میرا دل بھر آتا۔  میں نے  اپنی استعاعت کے مطابق مدد تو کی مگر جو چیز میں اُسے وافر مقدار میں دے سکتا تھا وہ حوصلہ تھا۔

پچھلے دنوں قائم دین کا فون آیا، “سر جی کراچی میں ہوں۔ بہت کوشش کی ہے مگر حوالے کے بغیر ڈرائیور کی نوکری نہیں ملتی۔ میرے پاس لائسنس ہے۔ منی ٹرک، پراڈو، کار، ہر قسم کی گاڑی چلا سکتا ہوں۔ آپ اپنے کسی ملنے والے کو کہیں۔”

میرے کلاس فیلو اور دوست ادریس چیمہ کا سیالکوٹ اور کراچی میں کسٹم کلیئرنگ کا بزنس ہے۔ کراچی میں بھی ان کا اپنا دفتر ہے۔ ان سے بھی گزارش کی۔ وکیل دوست نعیم ملک کےعزیز بھی کراچی میں کاروبار کرتے ہیں۔ ان  سے بھی کہا۔

کراچی میں کارپوریٹ حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت اور نیٹ شیل  گروپ کے مدار المہام، سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ اور وزیر مملکت احسن اظفر خان کو بھی پیغام بھیجا۔

یقیناً سب دوستوں نے اپنی طرف کوشش کی ہوگی یا ہو سکتا ہے انھیں یاد نہ رہا ہو۔ ایک دن مجھے قائم دین کا فون آیا کہ “سر جی اب  تو  2 راتوں سے فُٹ پاتھ پر سو رہا ہوں ۔ کھانے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے لنگر کھا کر گزارہ کر رہا ہوں۔ سارا دن کوشش کرتا ہوں نوکری کا کوئی بندو بست ہو جائے مگر حوالے کے بغیر بات نہیں بن رہی۔”

میں  نے کہا قائم دین قائم رہنا۔ گھبرانا نہیں۔ نوکری بھی ملے گی اور ایک دن تُم دوسرے لوگوں کی مدد کیا کر و گے۔

میں نے اُسے حوصلہ تو دیا مگر مجھے لگا جیسے میرا بیٹا کراچی کے فُٹ پاتھ پر لنگر سے گزارا کر کے سو رہا  ہے۔  میں نے اُسے 2 ہزار ایزی پیسہ کر دیا۔ مارکیٹ سے واپسی پر میں  نے سوچا گھر جا کر فیس بُک پر پوسٹ کر تا ہوں کہ اس طرح میرے بیٹے یا بھائی جیسے جوان کو نوکری چاہیے۔ اتنے ڈیجیٹل دوست ہیں کوئی نہ کوئی تو آگے  آئے گا۔

پھر سوچا ہفتہ وار کالم اسی موضوع پر لکھتا ہوں۔  بلاگ  کا موضوع رکھا “وہ بھیک نہیں نوکری مانگتا ہے”

پہلا فقرہ لکھا، “مجھے سندھ سے ایک خاص قسم کا پیا ر ہے” اور پھر بات کہیں کی کہیں نکل گئی اور پھر مجھے موضوع بھی بدلنا پڑا۔  میں  نے کہا اگلے ہفتے تک اُسے کوشش کرنے دیتا ہوں پھر بلاگ اُسی پر لکھوں گا۔ قائم دین کا پھر ایک دن اُسی طرح کا دُکھ بھرا فون  آیا۔ میں نے پھر پیسے بھجوا دیے اور ساتھ کہا تم کوشش جاری رکھو تمھیں ضرور کام ملے گے۔

کل سارا دن اُس کا فون نہ آیا۔ شام کو کسی نمبر سے دو تین مس کالز آئیں ہوئی تھیں۔ میں نے شام کو فون کیا تو قائم دین تھا۔ کہنے لگا، “سر آپ نے کہا تھا قائم رہنا۔ آج سارا دن فون میں بیلنس نہیں تھا اس لیے آپ کو فون بھی نہیں کرسکا۔ گھر والی امید سے تھی۔ آج بچہ ہوا، بیوی تو بچ گئی مگر بچہ نہیں بچ سکا۔ اب گھر جانے کا کرایہ بھی نہیں۔ اب بتائیں میں کیسے قائم رہوں؟”

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp