عام انتخابات میں 25 دنوں کا وقت رہ گیا ہے تاہم ابھی تک ملک میں روایتی سیاسی گہما گہمی نظر نہیں آ رہی ہے اور نا ہی پیپلز پارٹی کے علاوہ کوئی اور بڑی سیاسی جماعت میدان عمل میں سرگرم عمل ہے۔
2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) اپنے انتخابی نشان کے حصول کے لیے کبھی ہائی کورٹ، کبھی سپریم کورٹ کے چکر لگا رہی ہے جبکہ اس کے قائد عمران خان جیل میں قید ہیں۔
مزید پڑھیں
ن لیگ اپنے امیدواروں کی کو ٹکٹ جاری کرنے میں بالاخر کامیاب ہو گئی ہے اس کے علاوہ پارٹی کی طرف سے کوئی گہما گہمی نظر نہیں آرہی، پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جو ملک کے تمام حصوں میں بڑے انتخابی جلسے کر رہی ہے اور پارٹی چیئرمین بلاول ہر دوسرے روز کسی بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے ہوتے ہیں۔
وی نیوز نے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کی پارٹی کیسے انتخابی مہم چلا رہی ہے اور مستقبل کے لیے ان کا کیا لائحہ عمل ہے؟۔
انتخابی مہم میں صرف پیپلز پارٹی ہی نظر آتی ہے، قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا پیپلز پارٹی ملک بھر میں بھرپور طریقے سے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے اور اس وقت پاکستان میں ایک ہی جماعت ہے جس کے لیڈر سے لے کے کارکن تک سارے عوام میں نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو بھی مختلف جگہوں پہ جلسے کر رہے ہیں بلکہ یہ تو تبصرے بھی ہو رہے ہیں کہ خالی بلاول بھٹو ہی الیکشن مہم کر رہے ہیں، باقی پارٹیاں کیوں نہیں کر رہی ہیں؟ ان شا اللہ آئندہ چند دنوں میں ہم اپنی انتخابی مہم کو مزید تیز کریں گے ، پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی مہم چلانے کا بھرپور تجربہ رکھتی ہے۔
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ملک گیر بڑے جلسوں کے شیڈول کے بارے میں علم نہیں ہے لیکن اب ویسے بھی بڑے جلسے جلوسوں کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے، جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے بڑے جلسوں کے ذریعے پیغام رسانی کم ہو گئی ہے کیونکہ اس میں زیادہ وقت بھی صرف ہوتا ہے۔
اس وقت سیاسی جماعتوں کے پاس الیکشن مہم کا تھوڑا وقت ہے تو بڑے جلسے بڑا وقت درکار ہوتا ہے، اب بڑے جلسوں کی بجائے حلقوں میں چھوٹے جلسے اور کارنر میٹنگز کا رواج چل پڑا ہے۔
مسلم لیگ ن کی زبردست مہم چل رہی ہے، طارق فضل چوہدری
پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن پاکستان میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات کے لیے کی جانے والی تیاریوں میں دیگر تمام جماعتوں سے بہت آگے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے منشور کمیٹی بنائی ہے جس نے تفصیل سے کام کیا ہے اور پارٹی منشور تیار کر لیا گیا ہے، ن لیگ نے پارلیمانی بورڈ بھی تشکیل دیا ہے جس میں ٹکٹ کے لیے ہر امیدوار کا انٹرویو کیا گیا ہے اور اس کے بعد ان کا جائزہ لینے کے بعد ہی ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ اب پارٹی کا ہر امیدوار اپنے اپنے حلقے میں انتخابی مہم چلا رہا ہے اور ڈور ٹو ڈور مہم چلا رہا ہے۔
ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے قائد 22 جنوری کو مانسہرہ سے پارٹی مہم کا آغاز کریں گے اور ایک بڑے انتخابی جلسے سے خطاب کریں گے، اس جلسے میں پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز بھی نواز شریف کے ہمراہ ہوں گی، جبکہ 8 فروری سے قبل نواز شریف ملک بھر میں 20 سے زیادہ جلسوں سے خطاب کریں گے۔
پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے نہیں دی جا رہی، خالد یوسف
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما اور عمران خان کے وکیل خالد یوسف چوہدری ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان تحریک انصاف کے امیدواران کو اس وقت الیکشن مہم چلانے ہی نہیں دی جا رہی ہے۔
ان کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار اس وقت ذاتی حیثیت میں بھی کسی علاقے کا دورہ نہیں کر پا رہے ہیں، اگر وہ کہیں اس طرح انتخابی مہم چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ان پر مقدمات قائم کر کے ان کی الیکشن مہم کو وہیں روک دیا جاتا ہے۔
الیکشن مہم سوشل میڈیا کے ذریعے چلا رہے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کو روایتی الیکشن مہم سے تو بالکل روک دیا گیا ہے البتہ پاکستان تحریک انصاف الیکشن مہم سوشل میڈیا کے ذریعے چلا رہی ہے اور امیدوار سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اپنا پیغام جاری کرتے ہیں۔
خالد یوسف چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کا الیکشن مہم کا ایک ہی ذریعہ سوشل میڈیا ہے، ہر حلقے میں گاؤں ٹو گاؤں، گلی ٹو گلی جو ایک انتخابی مہم کا سلسلہ ہوتا ہے جس کے اندر عوام سے براہ راست رابطہ قائم کیا جاتا ہے وہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے امیدواران کو میسر نہیں ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بلے کے انتخابی نشان اور جماعت کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اس لیے جلسے شیڈول نہیں کیے گئے، جیسے ہی انتخابی نشان کا معاملہ حل ہوتا ہے تو اس کے بعد جلسوں کے شیڈول کا اعلان کیا جائے گا۔
ورچوئل جلسے کرنے کا آپشن موجود ہے
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہمیں بھی جلسے کرنے کا موقع دیا جائے، البتہ ورچوئل جلسے کی حد تک بھی تجاویز ہمارے پاس موجود ہیں اس حوالے سے بھی ہم چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں، اگر ہمیں روایتی جلسے نہ کرنے دیے گئے تو ہمارے پاس متبادل کے طور پر ورچوئل جلسہ کرنے کا آپشن موجود ہے۔