آج سے تقریباً 3 مہینے قبل میں جی ٹی روڈ پر مندرہ کے قریب سے گزر رہا تھا جب میں نے برگد کے ایک درخت کو زمین پر پڑے ہوئے دیکھا۔ شاید یہ آندھی اور طوفان کے سبب زمین پر ڈھیر ہو گیا تھا اور کچھ لوگ اسے کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے رک کر انہیں کہا کہ آپ اسے کاٹ کیوں رہے ہیں؟ ہم اسے بچا بھی سکتے ہیں۔ پلندری، آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے خواجہ مظہر کے بقول ’جب انہوں نے درخت کے پاس کھڑے لوگوں سے یہ کہا کہ اس درخت کو دوبارہ کھڑا کیا جاسکتا ہے تو سب لوگ حیرت سے انہیں دیکھنے لگے‘۔
انہیں شاید اس بات کا یقین نہیں تھا کہ یہ درخت دوبارہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے، لیکن ان کے اصرار پر انہیں اس بات کی اجازت دے دی گئی۔ وہاں موجود لوگوں کو قائل کرنے کے بعد انہوں نے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے انہوں نے اس درخت کی ویڈیوز اپنے دوستوں تک پہنچاتے ہوئے مدد کی اپیل کی۔ جس میں اندرون اور بیرون ملک مقیم بہت سے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
خواجہ مظہر بتاتے ہیں کہ درخت کے تنے کو واپس زمین میں کھڑا کرنے کے لیے اس کی جڑوں کے سائز سے دُگنا گھڑا کھودا گیا۔ جسے آدھے سے زیادہ گوبر اور درخت کے لیے ضروری خوراک سے بھر دیا گیا۔ جس نے اس درخت کو جلد ہی زندگی کی طرف لانے میں مدد کی۔ مقامی لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر اس کام میں حصہ لیا اور 72 گھنٹوں کے آپریشن کے بعد اس درخت کے تنے کو واپس اپنی جگہ میں کھڑا کر دیا گیا۔
’کسی کو یقین نہیں تھا‘
اس درخت کو ریسکیو آپریشن کے ذریعے بچانے والے مظہر اقبال کے مطابق وہ اکثر درختوں کو ایک جگہ سے نکال کر دوسری جگہوں پر لگا چکے ہیں۔ اس لیے اپنے تجربے کی بنیاد پر انہیں یقین تھا کہ یہ درخت زندگی کی جانب لوٹ آئے گا۔ البتہ وہاں کے علاقے میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ایک درخت جڑوں سے اکھڑ کر زمین پر گر گیا ہو اور اسے پھر سے زمین میں گاڑھ کر زندہ کر دیا گیا ہو۔ اس لیے زیادہ تر لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ یہ درخت بچ پائے گا۔ سوشل میڈیا پر جب انہوں نے ویڈیوز شیئر کر کے مدد کی اپیل کی تو بھی کئی لوگوں نے اس سارے عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جتنی رقم سے ایک درخت کو واپس کھڑا کیا جائے گا اتنے میں سینکڑوں درخت مزید لگ سکتے ہیں۔ لیکن ان کے بقول وہ نہیں جانتے کہ کسی نئے درخت کو اس ایک سینکڑوں برس پرانے درخت جتنا بننے کے لیے بھی سینکڑوں برس درکار ہوں گے یا نہیں۔
Related Posts
ریسکیو آپریشن میں جہاں درخت کو اس کی سابقہ جگہ پر دوبارہ کھڑا کیا گیا وہیں اس کی بقیہ صحت مند زندگی کے لیے اس کے اردگرد مناسب فاصلہ رکھ کر اینٹوں کی ایک دیوار بھی قائم کر دی گئی ہے جو پھیلتی ہوئی کنکریٹ سے اسے محفوظ رکھے گی۔ درخت کے ساتھ درجن بھرسوراخ بھی رکھے گئے ہیں جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر برگد کو پانی پلایا جاتا ہے۔
ریسکیو آپریشن کے تقریباً ایک مہینے بعد مسلسل نگہداشت کےنتیجے میں جب برگد کے ٹنڈ منڈ تنے سے دوبارہ سبز پتوں والی شاخیں پھوٹیں تو سب کو یقین آگیا کہ یہ بوڑھا درخت دوبارہ جوانی کی طرف لوٹ آیا ہے۔ خواجہ مظہر کے بقول جس دن اس کی کونپلیں دوبارہ پھوٹیں تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس درخت کو بچانے کی جدوجہد میں شریک تمام لوگ اس قدر خوش تھے کہ بیان سے باہر ہے۔
جی ٹی روڈ کنارے برگد
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے خواجہ مظہر نے بتایا کہ پوٹھوہار کے خطے میں برگد اور پیپل کے سینکڑوں درخت موت کے دہانے پر ہیں اور کوئی بھی ان پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ جس زمانے میں آمدورفت کے جدید اور تیزرفتار ذرائع دستیاب نہیں تھے تو کچے راستوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے کے بعد گھنی چھاؤں والے برگد کے درخت لگائے جاتے تھے۔ انہی درختوں کے قریب پانی کے تالاب بھی ہوتے تھے جنہیں مقامی زبان میں ’بن‘ کہا جاتا تھا۔ جب مسافر تیز دھوپ میں زرا سستانے کے لیے ان درختوں کی چھاؤں تلے سواری روکتے تو ان کے جانور پانی کے تالاب سے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ قریب موجود تالاب جہاں جانوروں کی پیاس بجھاتے وہیں ان گھنے درختوں کی جڑوں کو بھی سیراب رکھتے۔ موٹر کار، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز کے آنے سے جہاں تانگے، بیل گاڑیوں اور گھوڑوں کا سفری ضروریات کے لیے استعمال ناپید ہو گیا وہیں ان درختوں کے نیچے بیٹھنے والے مسافر بھی ختم ہو گئے۔
جب ضرورت ختم ہو گئی تو پھر ان درختوں کے گرد سے پانی کے تالاب بھی مٹی سے اٹ کر غائب ہو گئے۔ کہیں سڑک تو کہیں گھر اور دوسری تعمیرات کرکے لوگوں نے ان درختوں کے تنے تک کنکریٹ بھر کر ان کا گلا گھونٹ دیا۔ درخت کے ارد گرد موجود کنکریٹ جب پانی کو زیرِ زمین جا نے سے روکتی ہے تو درخت کی جڑیں پانی سے محروم رہ جاتی ہیں۔ یوں درخت سوکھ کر جلد ہی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
بینین پیزا
اس بوڑھے برگد کے کنارے پیزا شاپ کے مالک چوہدری شفیق بھی ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے بڑھ چڑھ کر اس درخت کو بچانے کی مہم میں حصہ لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ درخت اب اس علاقے میں اپنی ایک نئی پہچان بنا چکا ہے اور آس پاس کے علاقے میں انتہائی مثبت پیغام دے رہا ہے۔ اس عملی جدوجہد کی کہانی کو زندہ رکھنے کے لیے انہوں نے اپنے ایک پیزا کو اسی برگد سے موسوم کرتے ہوئے بینین پیزا کا نام بھی دیا ہے۔