کیا بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملوں سے اسرائیلی معیشت کو نقصان پہنچا ہے؟

پیر 15 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکا اور برطانیہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے حوثی مسلح گروپ کے زیراثرمتعدد مقامات پر بمباری کے بعد بحیرہ احمرمیں کشیدگی یمن کی سرزمین تک پھیل گئی ہے۔

حوثیوں کی جانب سے 30 کلومیٹر چوڑے آبنائے باب المندب سے گزرنے والے تجارتی جہازوں پر درجنوں حملے کیے جاچکے ہیں جن کے بارے میں ان کا دعوٰی تھا کہ وہ اسرائیل سے منسلک ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل غزہ پر بمباری بند کرے اور انسانی امداد کی اجازت دے۔

امریکی قیادت میں اتحاد بحیرہ احمر میں تباہ کن فوجی پلیٹ فارمز کو پوزیشن میں رکھ کر اور یمنی گروپ کے میزائلوں اور ڈرونوں کو مار گرانے کے ذریعے حوثیوں کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حوثیوں نے واضح کیا ہے کہ وہ اس وقت تک حملوں سے باز نہ آئیں گے جب تک  اسرائیل اپنی جنگ ختم نہیں کر دیتا، جس میں تقریباً 24,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

بحیرہ احمر کے راستے بحری ٹریفک میں 40 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے جس سے عالمی سپلائی چین میں خلل پڑتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے شپنگ آپریٹرز میں سے کچھ نے اپنے جہازوں کی سمت افریقہ کے جنوبی سرے پر کیپ آف گڈ ہوپ کے ارد گرد متعین کی ہیں، جس سے نہ صرف ترسیل کے اوقات میں تاخیر رونما ہوئی بلکہ ان کا سفر 6,000 کلومیٹر بڑھ گیا۔

لیکن حوثیوں کے حملوں نے خود اسرائیل کی معیشت کو کتنا متاثر کیا ہے اور وہ عالمی تجارت کو کیسے متاثر کر رہے ہیں؟ نومبر میں اسرائیل سے منسلک گلیکسی لیڈر جہاز پر قبضے کے بعد اب تک کم از کم 26 جہازوں پر حوثیوں نے حملہ کیا ہے، خطے میں امریکی جنگی جہازوں نے حوثیوں کے کئی دوسرے حملوں کو ناکام بھی بنایا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی حوثیوں کے حملوں کی مذمت کرچکی ہے۔

حوثیوں کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل غزہ پر بمباری بند کرے اور انسانی امداد کی اجازت دے۔ (فائل فوٹو)

بحیرہ احمر نہر سوئز کے ذریعے ایشیا کو یورپ اور بحیرہ روم سے ملاتا ہے، فی الحال، دنیا کی شپنگ کا تقریباً 12 فیصد بحیرہ احمر سے گزرتا ہے، اوسطاً روزانہ تقریباً 50 بحری جہاز، جن پر 3 سے 9 ارب امریکی ڈالر کی مالیت کا سامان لدا ہوتا ہے، مجموعی طور پر اس راستے سے گزرنے والے سامان کی مالیت کا تخمینہ سالانہ ایک کھرب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔

کیا تمام بحری جہاز متاثر ہوئے ہیں؟

ایسا لگتا ہے کہ کنٹینر کی ترسیل سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ تاہم، اس ہفتے کے شروع میں رائٹرز کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئل ٹینکرز کی آمدورفت بمشکل ہی متاثر ہوئی ہے۔

میری ٹریس کے حوالے سے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ، دسمبر کے دوران، اوسطاً 76 تیل بردار جہاز بحیرہ احمر میں موجود تھے، جو پچھلے مہینے کی اوسط سے صرف 2 ہی کم تھے، دوسرے ٹریکرز نے اسی مدت کے دوران معمولی اضافے کی اطلاع دی۔

جنوری کے اوائل میں، حوثی باغیوں نے اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی بحری جہاز اس علاقے سے گزرنا چاہتا ہے، پانی میں داخل ہونے سے پہلے اپنی ملکیت اور منزل کا اعلان کر دے، تو اس پر حملہ نہیں کیا جائے گا، مارسک اور ہاپاگ لائیڈ نے تب سے باغی گروپ کے ساتھ کسی بھی معاہدے تک پہنچنے سے انکار کیا ہے۔

کیا ان حملوں نے ایک محفوظ تجارتی پارٹنر کے طور پر اسرائیل کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے؟

دسمبر کے وسط تک، اسرائیل کی بحیرہ احمر میں واحد بندرگاہ، ایلات میں، حملے شروع ہونے کے بعد سے سرگرمیوں میں 85 فیصد کمی کی اطلاع ہے۔

جب کہ اسرائیل کی سمندری ٹریفک کا بڑا حصہ بحیرہ روم کی حیفہ اور اشدود کی بندرگاہوں سے اپنا آغاز کرتا ہے، بحیرہ مردار کے پوٹاش کی برآمدات کے ساتھ ساتھ چینی تیار شدہ کاروں کی درآمدات، جو اسرائیل کی الیکٹرک وہیکل فروخت کا 70 فیصد بنتی ہیں، کا انحصار ایلات کی بندرگاہ پر ہے۔

بہت سے کیریئرز کے لیے جہاز اور عملے دونوں کے لیے خطرات اہم ہیں۔ اس ہفتے، چینی سرکاری کیریئر کوسکو اسرائیل کو ترسیل معطل کرنے میں اپنی ذیلی کمپنی کے ساتھ شامل ہوا، تاہم امریکی بحریہ کے سابق کپتان اور رینڈ کارپوریشن میں انسٹی ٹیوٹ فار سپلائی چین سیکیورٹی کے ڈائریکٹر بریڈ مارٹن نے اسرائیل کے سامنے چیلنج کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے خبردار کیا ہے۔

’بحیرہ احمر میں جہاز رانی میں خلل، اور یہاں تک کہ کچھ جہازوں کی حد تک اسرائیلی کارگو میں کمی بھی اسرائیل کو اقتصادی طور پر گھٹنوں کے بل نہیں لا سکے گی۔‘

بریڈ مارٹن سمجھتے ہیں کہ بحیرہ روم کے ذریعے بہاؤ ممکنہ طور پر بلا روک ٹوک جاری رہے گا، اسرائیل شاید اپنے بیشتر پڑوسیوں کے مقابلے میں خلل کو جذب کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہے۔ ’تاہم، جہاز رانی اور تجارت سفارتی اور سیاسی کارروائی کے تابع ہو سکتے ہیں، اس لیے معاشی طور پر نقصان دہ تنہائی یقینی طور پر اس محاذ پر واقع ہو سکتی ہے۔‘

طویل المدتی اثر کیا ہو سکتا ہے؟

اگرچہ تجزیہ کاروں نے اتفاق کیا ہے کہ اسرائیل کی معیشت پر حوثی باغیوں کے حملوں کا براہ راست اثر محدود رہا ہے، لیکن یہ رکاوٹیں جتنی دیر تک جاری رہیں گی، اس کے اثرات اتنے ہی زیادہ ہوتے جائیں گے۔

ایک شدید کمزوری اسرائیل کے اپنے آپ کو مائع قدرتی گیس (LNG) کے برآمد کنندہ کے طور پر قائم کرنے کے عزائم ہیں جس میں سے اس کے پاس اہم بین الاقوامی مارکیٹ کا ایک چھوٹا لیکن بڑھتا ہوا حصہ ہے۔

رسک کنسلٹنسی ایس آر ایم کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر گیبریل ریڈ سمجھتے ہیں کہ 7 اکتوبر کے حملے سے قبل اسرائیل ایک قابل اعتماد گیس برآمد کنندہ بننے کی راہ پر گامزن تھا۔ ’لیکن بڑھتی ہوئی مخاصمت کے باعث نہ صرف اسرائیل میں کاروبار کرنے کے سیاسی خطرے کو بڑھا دیا ہے بلکہ مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں اسرائیل کی بطور قدرتی گیس کی عالمی منڈیوں میں ممکنہ اہم ملک ہونے کی امکانات کو بھی گہنا دیا ہے۔‘

کہیں اور کیا اثر ہوا ہے؟

کلارکسن ریسرچ سروسز لمیٹڈ کے مطابق، بحیرہ احمر سے گزرنے والی ٹریفک اس وقت دسمبر کے پہلے نصف کے دوران ریکارڈ کی گئی شرح سے 44 فیصد کم ہے، کیونکہ جہازوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بندرگاہ تک پہنچنے کے لیے کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد طویل راستہ اختیار کرتی ہے۔

ایندھن اور افرادی قوت کے بڑھتے ہوئے واضح اخراجات کے ساتھ ساتھ، اس سے بیمہ کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ تاخیر کا باعث بن سکتا ہے، کیونکہ بندرگاہوں پر رش بڑھ جاتا ہے۔

امریکا، یورپ اور ایشیا کے درمیان 8 بڑے بحری راستوں پر جہاز رانی پر نظر رکھتے ہوئے ڈریوری ورلڈ کنٹینر انڈیکس کا کہنا ہے کہ حملوں کے بعد چین سے یورپ تک 40 فٹ کنٹینر کی نقل و حمل کی لاگت نومبر میں 1,148 ڈالر سے 248 فیصد بڑھنے کا خدشہ ہے۔

ڈریوری میں کنٹینر ریسرچ کے ایک سینئر مینیجر سائمن ہینی سمجھتے ہیں کہ مجموعی لاگت 3 سے 21 فیصد کے درمیان کہیں بھی بڑھ سکتی ہے، تاخیر بھی ایک اہم عنصر ہو گا جیسا کہ ترقی یافتہ معیشتوں میں بیشتر بروقت مینوفیکچرنگ کے عمل سے قبل درکار سامان کچھ لمحے پہلے ہی ترسیل کی جاتی ہے، وہاں متوقع تاخیر سے ہم آہنگی ایک مسئلہ ہوگی۔

اس کا عالمی معیشت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

اگرچہ چین اور ہندوستان جیسے ممالک سے تیار کردہ سامان کی موجودہ مانگ وبائی امراض کے عروج کے دنوں کے مقابلے میں کم ہے ، لیکن قیمت میں کسی قسم کی تبدیلی یا شپنگ کے نظام الاوقات میں رکاوٹ کے نتائج برآمد ہونے کا امکان ہے۔

تاہم، جبکہ نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ مہنگائی کا باعث بن سکتا ہے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اندازہ لگایا ہے کہ وبائی امراض کے دوران جہاز رانی کے راستوں میں افراتفری کی وجہ سے عالمی افراط زر میں 1 فیصد اضافہ ہوا تھا، جو کہ ابھی تک نہیں ہوا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp