کافی عرصہ سے میرا ارادہ بن رہا تھا کہ قبائلی علاقوں پر بالعموم اور اپنے ضلع باجوڑ پر بالخصوص ایک تحریر لکھوں جس میں ان اضلاع میں لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کی سہولیات کا رونا روؤں۔ لیکن پھر سوچا کہ اعلیٰ تعلیم تو بعد میں آتی ہے۔ پہلے پرائمری، مڈل اور ثانوی تعلیم کے مسائل پر بات کروں۔ کیونکہ بنیادی تعلیم کمزور ہوگی تو اعلیٰ تعلیم کیا خاک ٹھیک ہوگی!
بنیادی تعلیم
سرکاری اعداد و شمار چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں 79 فیصد لڑکیاں اور 69 فیصد لڑکے پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی تعلیم کو نہ چاہتے ہوئے بھی الوداع کہہ دیتے ہیں۔ تو پھر کون مڈل و ثانوی تعلیم کے لئے بڑی تعداد میں قدم بڑھاۓ گا؟
ضلع باجوڑ کی آبادی 12 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ دوسری جانب پورے باجوڑ میں لڑکیوں کے لیے صرف 186 پرائمری اسکول ہیں، جن میں سے زیادہ تر کی حالت خستہ حال ہے جبکہ ان اسکولوں میں بجلی، پینے کا صاف پانی اور واش رومز کی سہولیات تک موجود نہیں ہیں۔
مڈل و ثانوی تعلیم
ضلع باجوڑ میں لڑکیوں کے لیے صرف 42 مڈل اسکول، 13 ہائی اسکول اور ایک ہائیر سیکنڈری اسکول ہے۔ اب آپ خود بتائیں کہ یہ نا انصافی نہیں تو کیا ہے۔ اس حوالے سے ایک لڑکی سے بات ہوئی تو اس نے کہا، “ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کے لیے کوئی مڈل اسکول نہیں اور والد دور جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ یہ میری بہت بڑی خواہش ہے کہ مزید تعلیم حاصل کروں اور آگے بڑھ کر اپنا مستقبل سنواروں۔” اس لڑکی کی باتیں سن کر میں افسردہ ہو گئی۔ نہ جانے کب سے یہ لڑکیاں تعلیم کا ارمان دل میں لیے بوجھل دل کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔
اعلیٰ تعلیم
بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھ رہی ہوں کہ پورے باجوڑ میں فقط ایک گرلز ڈگری کالج ہے جس کی شروعات ہسپتال کی عمارت سے ہوئی تھیں اور اس میں طالبات کی تعداد کافی کم ہے۔ والدین اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن ان بچیوں کو اتنا دور بھیجنا ان کے لیے مشکل ہے کیونکہ ٹرانسپورٹ کافی مہنگی پڑتی ہے۔
2016 میں درہ آدم خیل میں فاٹا یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد تو رکھ دیا گیا مگر پھر بھی اعلیٰ تعلیم زیادہ تر قبائلی اضلاع کی لڑکیوں کی پہنچ سے دور ہے۔ امسال 600 سے زائد لڑکوں اور لڑکیوں نے داخلہ لیا تو آپ خود سوچیں کہ ان علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کی طلب کتنی زیادہ ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان 600 طلبا میں سے لڑکیوں کی تعداد محض 22 تھی۔ کیونکہ روزانہ دیگر اضلاع سے لڑکیوں کا یونیورسٹی آنا یا ہاسٹل میں رہنا کافی مشکل ہے۔
فاٹا یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر، محمد طاہر شاہ صاحب، نے کہا کہ “اس سے پہلے میں نے تعلیم کے لیے اس طرح کی پیاس نہیں دیکھی تھی”۔ اس وقت فاٹا یونیورسٹی میں لڑکیوں کی تعداد بشمول قبائلی اضلاع کی طالبات کے محض 150 ہے اور لڑکوں کی تعداد 1000 ہے۔ اس کم تعداد کے پیچھے یوں تو بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن یونیورسٹی سے فاصلہ، ٹرانسپورٹ کی کمیابی، اور ہاسٹل میں رہنے جیسی مشکلات لڑکیوں کے والدین کو انہیں یونیورسٹی بھیجنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ہر قبائلی ضلع میں نہ صحیح، ایک یا 2 متصل اضلاع میں ہی لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی بنا دی جائے تو لڑکیوں کی شرحِ داخلہ میں واضح اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
یوں تو ملکِ من کا پورا نظامِ تعلیم ہی فرسودہ اور ناکارہ ہے لیکن قبائلی علاقوں میں صورتحال مزید ابتر ہے۔ یہاں پرائمری سے لے کر پوسٹ گریجویٹ تک تعلیمی اداروں کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری جانب قبائلی اضلاع کی تعلیمی پسماندگی کا رونا تو پتا نہیں کب سے رویا جا رہا ہے لیکن اس زمینی صورتحال کو بدلنے کے لیے ٹھوس اقدامات کسی بھی سطح پر نہیں اٹھائے جا رہے۔ اس کی ایک بڑی اور اہم وجہ ہمارے سیاست دانوں کی عدم توجہی ہے۔
اعلی تعلیم کے حصول کے لیے لڑکے تو دیگر صوبوں کا رخ کر لیتے ہیں مگر قبائلی روایات، جو کہ خواتین پر بڑی آسانی سے لاگو ہوتی ہیں، کی وجہ سے لڑکیاں اس “بغاوت” کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ کوئی ایک آدھ آشفتہ سر اس “بغاوت” کی مرتکب ہو بھی جائے تو اس کا یہ عمل اس کے لیے زندگی بھر کا پچھتاوا بنا دیا جاتا ہے۔
میرا دل تو خون کے آنسو روتا ہے کہ قبائلی اضلاع کی لڑکیاں قابلیت، ذہانت اور محنت و لگن کے لحاظ سے ملک کے کسی بھی دوسرے صوبے کی طالبات سے کم نہیں۔ بلکہ ان طالبات نے ہمیشہ مختلف قسم کے مقابلے کے امتحانات میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہے اور اپنی قابلیت اور ذہانت کا لوہا بھی منوایا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ اگر ان کو اچھی تعلیمی سہولیات میسر ہوتیں تو پھر صورتحال کیا ہوتی۔ لیکن اربابِ اختیار کو کون سمجھائے جن کی عدم توجہ کی وجہ سے تعلیمی شعبے کا ستیاناس ہوا پڑا ہے۔ رہی سہی کسردہشت گردوں نے پوری کر دی ہے جو لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سےاڑانا دہرے ثواب کا کام سمجھ کر رہے ہیں۔
میری ناقص عقل کے مطابق قبائلی اضلاع میں تعلیمی سہولیات بہم فراہم کرنا صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے تاکہ یہاں کی ذہین لڑکیوں کو بھی تعلیم کی روشنی سے روشناس کرایا جا سکے۔ اگر ان کو مناسب تعلیمی ماحول مہیا کیا جائے تو یہ بھی اپنے خاندان، علاقے اور ملک کی ترقی میں اتنا ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں جتنا دیگر صوبوں کی لڑکیاں کر رہی ہیں۔ تعلیم کے ذریعے ہی ان لڑکیوں کو روزگار اور اپنا مستقبل سنوارنے کا موقع مل سکتا ہے۔
باقی فیصلہ میں آپ سب پر چھوڑتی ہوں۔ آپ ہی بتائیں کہ کیا یہ سراسر ظلم نہیں ہے کہ 75 سالوں میں بھی ملکی تعلیمی نظام میں کوئی بہتری نہیں آئی؟ یا پھر جان بوجھ کر نہیں لائی گئی؟ اگر کچھ اصلاحات متعارف بھی کرائی گئی ہیں تو کیا وہ قابلِ ذکرہیں؟ آخر فاٹا مرجر کے بعد بھی ہم قبائلی لڑکیوں کو کوالٹی ایجوکیشن سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ تعلیم کے لحاظ سے یہ لڑکیاں آخر کیوں امتیازی سلوک کا شکار ہیں؟