پولیس کی ملازمت کے دوران بہت سے ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملے جنہیں دیکھ کر ایک بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ اگرہمارے ریٹائر ہونے کے بعد اگر لوگوں کو کچھ یاد رہ جاتا ہے تو وہ دوران ملازمت ہمارا ان کے ساتھ پیش آنے والا سلوک اور اچھا رویہ ہے۔ خصوصاً وہ لوگ جو ہمارے ماتحت رہے ہوں، ہم سے اختیارات میں کمزور ہوں یا دوران ملازمت ہمارے رحم و کرم پر رہ چکے ہوں۔ بہت کم سرکاری افسران ایسے ہوتے ہیں جو کسی بااثر اور طاقتور کے سامنے سر اٹھا کر بات کرنے کی جرات کر تے ہیں۔
کوئی بھی سرکاری افسر اپنے اثر رسوخ، طاقت، دولت یا بدمعاشی سے لوگوں کو وقتی طور پر تو متاثر کر سکتا ہے، انہیں ڈرا سکتا ہے لیکن جس دن یہ طاقت اور اختیار ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے چھن جاتا ہے تو پھرجب وہ لوگوں سے ملتا ہے تو انہیں صرف اس شخص کا اچھا یا بُرا رویہ ہی یاد ہوتا ہے۔
اگر کسی سرکاری افسر کو سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے یہ یقین ہو کہ ایک دن ایسا آسکتا ہے کہ جب وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بے اختیار اور عام شخص کی حیثیت سے جانا جائے گا تو پھر وہ خود کو ظلم اور زیادتی سے بچانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ میں چونکہ پولیس سروس میں رہا تو میرے مشاہدے میں جوباتیں آئیں انہیں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں۔
ایک پولیس افسر جب کسی تھانے میں متعین ہوتا ہے تو اس تھانے میں آنے والے سائل اور گرفتار ہونے والے ملزمان اس کے اچھے رویہ اور رحم و کرم کے طالب ہوتے ہیں۔ اپنے ماتحت سے، کسی سائل یا ملزم سے ہمارا اچھا رویہ نہ صرف اسے ہمیشہ یاد رہ جاتا ہے بلکہ اگر مستقبل میں کبھی ہمار ان سے آمنا سامنا ہوجائے تووہ ہمیشہ ہم سے عزت و احترام سے پیش آتا ہے۔
لیکن اگر ہم ایک روایتی سرکاری افسر بن کر ان کی تذلیل کریں، ان کی عزت نفس کومجروح کریں تو یقین کریں شاید تھپڑ کی مار انسان بھول جاتا ہو لیکن اپنی تذلیل اور عزت نفس کے مجروح ہونے کے غم کو نہیں بھولتا۔ میں یہاں صرف چند واقعات پیش کر رہا ہوں جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر کسی کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے تو چاہے وہ کتنا ہی کمزور ہو،کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
بدھ 10 اپریل 2013 کی ایک شام میں میرے ایک اچھے دوست اور بیچ میٹ آغااسد اللہ (جو اس وقت ایس۔ ایچ۔ او، پریڈی متعین تھا )کو ابتدائی اطلاع کے مطابق صدر کے علاقے مرشدبازارکے قریب نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کر کے ماردیا۔ اس وقت اُس کا محافظ ایک پولیس کانسٹبل بھی اس کی گاڑی میں موجود تھا جو اسے فورا ًاسپتال لے گیا جہاں وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔
زخمی کانسٹیبل نزاکت نے بتایا کہ ان کی گاڑی پر باہر سے فائرنگ کی گئی تھی۔ پولیس کے اعلیٰ افسران نے شک کی بنا ء پرکانسٹیبل نزاکت کو حراست میں لے لیا تھا۔ مقتول کے ماتھے پر انتہائی قریب سے گولی لگنے کا نشان تھا۔ آغا اسد اللہ ایک دلیر افسر تھا جس نے دو روز قبل بھتہ خورگروپ سے تعلق رکھنے والے 2 ملزمان کو بھی گرفتار کیا تھاجس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کا تعلق طالبان گروپ سے تھا اس لیے ابتداء میں یہی گمان تھا یہ قتل دہشت گردی کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔
کانسٹیبل نزاکت کے بیان میں تضاد تھا کیونکہ دوران تفتیش یہ ثابت ہوا کہ گولی گاڑی کے اندر سے چلائی گئی اور آغا اسداللہ کوعقب سے گولی لگی جس سے ان کی موت واقع ہوگئی۔
بعد ازاں دوران تفتیش گن مین نزاکت نے اپنے پہلے اعترافی بیان میں کہا کہ اس سے اتفاقاً فائر ہوگیا لیکن اس کے بعد کانسٹبل نزاکت نے جو بیان دیا وہ حیرت انگیز تھا۔ اس نے بتایا کہ مرحوم آغا اسد اللہ اسے بہت لعن طعن کرتا تھا اور گالیاں بکتا تھا جس پر اس دن اسے غصہ آگیا اور اس نے پیچھے سے فائر کر کے آغا کو قتل کر دیا۔ نزاکت کو انسداد دھشت گردی عدالت سے موت کی سزا سنا دی گئی ہے۔ گو کہ آغا کے لواحقین نے اب تک اس بات کو تسلیم نہیں کیا لیکن کانسٹیبل نزاکت کا بیان اب بھی وہی ہے۔
16 اپریل 2015، کونامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے اس وقت کے ایس۔ ایچ۔ او پریڈی اعجاز خواجہ کو قتل کر دیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ایک موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم شخص اس کی ریکی کر رہا تھا جبکہ دوسرا سڑک پر موجود تھا۔ جیسے مرحوم اعجاز خواجہ موڑ پر پہنچا تو سڑک پر موجود لڑکے نے چلتی گاڑی پر فائر کیا لیکن وہ جان لیوا ثابت نہیں ہوا، انہوں نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اسی دوران کار سامنے سے آنے والی گاڑی سے ٹکرانے کے بعد گرین بیلٹ پر چڑھ گئی اور حملہ آور نے قریب جا کر دو فائر کیے جو جان لیوا ثابت ہوئے۔
ابتدا میں یہ واقعہ بھی مذہبی ٹارگٹ کلنگ کا محسوس ہوتا تھا کیونکہ اعجاز خواجہ کا تعلق ایک خاص فرقے سے تھا۔ میں سن 2002 میں جب ایس۔ ایچ۔ او، ڈیفنس تھا تو اعجاز خواجہ میرے پاس ڈیوٹی افسر ہوا کرتا تھا۔ بظاہر وہ ایک نرم طبع اور خوش مزاج افسر تھا۔ اکتوبر 2015، میں اسپیشل انویسٹی گیشن پولیس نے ایک چھاپے کے دوران ایک مبینہ ڈکیت وسیم عرف کمانڈو کو گرفتار کرنے کے بعد اس سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہوا کہ اس نے اعجاز خواجہ کو ذاتی عناد کی بناء پر ریکی کر کے قتل کیا۔ اس نے دوران انٹروگیشن یہ انکشاف کیا کہ جب اعجاز خوانہ ایس۔ ایچ۔ او ڈیفنس متعین تھا ان دنوں ڈیفنس پولیس نے اس کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا، جب یہ نہیں ملا تو اس کے بھائی کو اٹھا کر لے گئے۔ اس نے بتایا کہ دوران حراست اعجاز خواجہ کے کہنے پر اس کی ٹیم نے اس کے بھائی پر بہت زیادہ تشدد کیا جس کے صدمے سے اس کے والد کو دل کا دورہ پڑا اور ان کا انتقال ہو گیا جس کے وجہ سے اسے غصہ تھا۔
اس لیے اس نے اپنے ایک بچپن کے دوست کے ساتھ مل کر اعجاز خواجہ سے بدلہ لینے کا عہد کیا تھا۔ اور پھر 16 اپریل کو کئی دن کی ریکی کے بعد موقع ملتے ہی اعجاز خواجہ کو قتل کر دیا۔ گو کہ ملزم کے بھائی پر اعجاز خواجہ نے از خود کوئی تشدد نہیں کیا لیکن ملزم اسے اس لیے ذمہ دار سمجھتا تھا کہ وہ ایس۔ ایچ۔ او تھا اور اس کے خیال میں یہ تشدد اعجاز کے کہنے پر ہی کیا گیا۔ لہذا اپنی شدت پسندانہ اور مجرمانہ ذہنیت کی بناء پر اس نے اعجاز خواجہ کو قتل کیا۔
بدھ 13 اگست 2014 گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر کے قریب مسلح افراد کی فائرنگ سے ایس ایچ او پریڈی انسپکٹر غضنفر کاظمی جاں بحق ہوگیا۔ غضنفر کاظمی گارڈن ہیڈ کوارٹرز میں واقع رہائش گاہ جارہا تھا کہ راستے میں اسے موٹر سائیکل پر سوار ملزمان نے نشانہ بنایا جس سے وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ مقتول غضنفر کاظمی 1992 میں کراچی آپریشن میں بھی سرگرم رہا تھا۔ اس کے قتل کا سب سے پہلا شک کسی لسانی یا مذہبی تنظیم کے افراد پر گیا۔
لیکن جب نومبر 2014 میں بلدیہ کے علاقے سے قتل کے ماسٹر مائنڈ عمران زمان نامی شخص کو گرفتار کیا گیاتو اس نے دوران انٹروگیشن انکشاف کیا کہ اس نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے غضنفر کاظمی کو قتل کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ غضنفر کاظمی جب ایف۔ آئی۔ اے، کراچی میں تعینات تھا تو ملزم کو ایک بینک فراڈ کی انکوائری کے سلسلے میں دفتر بلایا گیا جہا ں اس پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں شاید وہ مار بھی بھول جاتا لیکن جب غضنفر کاظمی نے مجھ سے زبردستی اعتراف جرم کروانے کے لیے، مجھے میری والدہ اوربہن کے سامنے (جو مجھے چھڑانے کے لئے ایف۔ آئی۔ اے کے دفتر آئی تھیں) برہنہ کر دیا تو مجھ سے وہ ذلت برداشت نہیں ہوئی۔
اس نے اسی دن ٹھان لی تھی کہ جب بھی وہ جیل سے باہر آیا اپنی اس ذلت اور بے عزتی کا بدلہ ضرور لوں گا۔ واضح رہے کہ عمران زمان کوئی عادی جرائم پیشہ شخص یا قاتل نہیں تھا بلکہ ایک بینک میں ملازمت کرتا تھا۔ لیکن اس کا کہنا تھا کہ اس بے عزتی کے بعد میں راتوں کو سو نہیں پاتا تھا اور اپنی ماں اور بہن سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ جیل میں اس کی کچھ منشیات فروشوں سے دوستی ہو گئی جن میں سے ایک کے ساتھ ملک کر اس نے غضنفر کاظمی کو مارنے کا پروگرام بنایا اور جیل سے نکل کر موقع ملتے ہیں اسے قتل کر دیا۔
یہ صرف چند واقعات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کوئی بھی شخص خود پر کیے جانے والے جسمانی تشدد کو تو سہہ سکتا ہے لیکن اگر بات اس کی عزت نفس پر آجائے تو ایک کمزور شخص بھی وہ کام کر گزرتا ہے جس کی اس سے اُمیدنہیں کی جاسکتی۔ کوشش کریں لوگوں کو اپنے رویے سے اپنا گرویدہ بنائیں نہ کہ اپنی بدزبانی اور بد خواہی سے اپنے نامعلوم دشمن پیدا کریں۔