جمہوریت اور ریلوے اسٹیشن

منگل 16 جنوری 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میں نے ایک بڑے ریلوے اسٹیشن  کے ایک سگنل مین سے پوچھا۔ تنخواہ میں گزارہ ہو جاتا ہے؟ کہنے لگا آج کل کہاں ہوتا ہے بابو۔ پلیٹ فارم پر قائم اسٹالوں سے چار پیسے نہ ملیں تو دو وقت کی روٹی بھی پوری نہ ہو۔

اس کی بات میرے پلے نہیں پڑی۔ تمہاری ڈیوٹی تو آؤٹر سگنل کیبن پر ہے۔ تمہیں پلیٹ فارمز کے اسٹالوں سے کیا لینا دینا ؟ کہنے لگا بابو اسٹیشن ماسٹر کے بعد سب سے اہم آدمی میں ہی تو ہوں جو یہ ریلوے اسٹیشن چلاتا ہے۔

دیکھو ہوتا یوں ہے کہ جو بھی اسٹالوں کے ماہانہ پیسے طے ہیں ان میں ریلوے اسٹینشن پر کام کرنے والوں کی حصہ داری بھی طے ہے۔ ریلوے پولیس تو پارکنگ،  قلیوں اور بے ٹکٹوں سے کھا کما لیتی ہے۔ ہم تو یہ نہیں کر سکتے کہ پارکنگ والوں اور قلیوں کی جیب میں جھانکتے پھریں تو پھر ہمارا آسرا انہی اسٹالوں اور ٹھیکیداروں پر ہوتا ہے۔

کبھی کبھی یہ لوگ سیان پتی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رونا روتے ہیں اس بار مندا ہو گیا، خرچہ پورا نہیں ہوتا۔ توڑ توڑ کے بھی ماہانہ دیتے ہیں۔ ریں ریں بھی کرتے جاتے ہیں۔

ہم پہلے تو انہیں سمجھاتے ہیں کہ تمہاری روزی روزگار بھی اسی پلیٹ فارم سے نکلتی ہے اور ہماری بھی لگی بندھی تنخواہ ہے۔ ہم تم سے نہیں پوچھتے کہ تم کتنے کی چیز کتنے میں بیچ رہے ہو۔ کباب، روٹی، چائے، بسکٹ، کولڈ ڈرنک کے نام پر کیا کیا دو نمبری کر رہے ہو۔ منرل واٹر کی بوتلوں میں کس نلکے کا پانی بھر  رہے ہو۔ اب دائی سے پیٹ تھوڑی چھپتا ہے۔ لہذا جو دستور پہلے سے طے ہے اسی حساب سے چلو۔ تم بھی راضی ہم بھی خوش۔

پچھلے سال کیا ہوا بابو کہ ان پلیٹ فارمز کے اسٹالوں اور خوانچے والوں نے ہمیں بتائے بغیر اپنی یونین بنا لی اور کہا کہ ہم الگ الگ پیسے نہیں دیں گے بلکہ ہمارے صدر اور سیکٹری صاحب جیسا بولیں گے ویسا ہی کریں گے۔ ہم نے یہ تیور دیکھے تو بڑی حیرانی ہوئی۔ آج تلک ایسا نہیں ہوا تھا۔ اسٹیشن ماسٹر صاحب کو خبر کی تو انہوں نے ان لوگوں کے دماغ درست کرنے کے لیے ایک فیصلہ کیا۔

اگلے دن سے جو تیز گام ایک نمبر پلیٹ فارم پر لگنی تھی وہ ہم نے 3 نمبر پر لگادی۔ 3 نمبر پر کھانے پینے کے 2 ہی اسٹال ہیں۔ 2 نمبر پلیٹ فارم پر لگنے والی  میرپور خاص سے آنے والی گاڑی کو ایک نمبر پر لگنے کی کلیرنس دے دی۔ جو بزنس ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر ایک پر منہ اندھیرے صفائی دھلائی کے کے لیے آتی ہے اسے ٹکنیکل ( فالٹ)  لکھ کے 3 پر ڈال دیا۔ مسافروں کو تکلیف تو ہوئی۔ مگر 2 ہی دن میں پلیٹ فارم نمبر ایک اور 2 کے اسٹالوں پر الو بولنے لگا۔ سالوں کے دماغ ٹھکانے پر آ گئےاور پہلے کی طرح حصہ داری پر راضی ہو گئے۔ ان کی یونین اب بھی ہے مگر کوئی اس کا بہت زیادہ زکر نہیں کرتا۔

تو بابو سگنل مین کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ وہ کوئی بھی کانٹا کھینچ کے کسی بھی ٹکنیکل وجہ کو ڈائری میں لگا کے کسی بھی لائن پر شفٹ کر سکتا ہے۔ آپ نے بچپن سے کھڈے لائن کا تو سنا ہوگا۔ یہ کام بھی ’آپ کا بھائی‘ ہی کر سکتا ہے۔ کیا سمجھے؟

میں بہت دیر تک سگنل مین کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ اور پھر مجھے پر اس کتھا کہانی کے دروازے سے کڑی در کڑی مسلسل  گیان ملتا چلا گیا۔

آپ کو نہیں لگتا کہ ہماری جمہوریت بھی تو ایک ریلوے اسٹیشن جیسی ہے۔ جس پر طرح طرح کے کاروباری و تنظیمی اسٹالز لگے ہوئے ہیں۔ اور ان اسٹال والوں کا ریلوے اسٹیشن کی انتظامیہ سے ایک غیر رسمی معاہدہ ہے کہ سب کو ساتھ لے کے چلنا ہے۔ سب کو ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنا ہے تاکہ سب کی دوکان اور پیٹ کا بندوبست جاری رہے۔

ریلوے اسٹیشن کی تنخواہ دار انتظامیہ وہی رہتی ہے۔ اسٹالز والوں کے ٹھیکے آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں یہ سب بچانے کے لیے  مٹھی چاپی بھی کرنا پڑتی ہو گی، اوپری سے نچلے تک کے اہلکاروں کو خوش رکھنا پڑتا ہو گا۔ ریلوے پولیس سے بھی بنا کے رکھنا پڑتی ہو گی اور سگنل مین اور دیگران کی بھی خیر خیریت سے باخبر رہنا ہو گا۔ یوں سارا سسٹم کچھ لو کچھ دو کی پٹڑی پر بخیر و خوبی چلتا رہتا ہے۔

پلیٹ فارم کی ایک ایک اینٹ جانتی ہے کہ اسٹیشن ماسٹر، اسسٹنٹ اور سگنل مین کیا کیا کر سکتے ہیں۔ کون سا کانٹا بدل کے کس ٹرین کو کس پٹڑی پر ڈال کے اسٹال والوں کی پوری کاروباری گنتی کو کھڈے لین لگایا جا سکتا ہے۔یا ٹرین کو ہی ٹکنیکل قرار دے کر یا اوو ہالنگ کے لئے یا صفائی کی خاطر یا انجن خراب بتا  کے شنٹنگ میں یا مارشلنگ یارڈ میں بھیج سکتے ہیں۔

مسافروں ( ووٹروں ) کو کیا پتا کہ  آگے پیچھے دائیں بائیں اوپر نیچے کیا کھیل چل رہا ہے اور ان کو کیسی کیسی کہانیوں اور دلاسوں کے استروں سے چھیلا جا رہا ہے۔ اس پورے کھیل میں انجن ڈرائیور، ٹکٹ کلکٹر، کنڈیکٹر گارڈ  بھی شامل ہیں۔ کیسے شامل ہیں اور ان کے پاس خفا ہونے کی صورت میں  سسٹم کو ٹھپ کرنے یا لیٹ کرنے یا وقت پر چلانے کے کیا کیا پشتینی چمتکاری گر ہیں۔ یہ میں کسی اور وقت عرض کروں گا۔

موٹی بات یہی ہے کہ ریاست، سسٹم اور ریلوے اسٹیشن ایک ہی اصول پر کام کرتے ہیں۔ بے اصولی پر مبنی یہ نظام بہت محنت اور عرق ریزی سے ترتیب دیا گیا ہے۔ ہمیں بھلے سسٹم خراب لگتا ہو مگر جو چلا رہے ہیں ان کے لیے  پرفیکٹ ہے۔ اسی لیے اب تک چلے جا رہا ہے۔

ایسا نہیں کہ ریلوے اسٹیشن چلانے کا کوئی مینوئل یا ضابطہِ کار نہیں۔ کاغذ پر انگریز کے زمانے سے ایک ایک چیز موجود ہے۔ کس انتظامی اور ٹیکنیکل مسئلے کا کیا حل ہے یہ تک لکھا ہے۔ مگر آپ تو جانتے ہیں کہ کتابی علم بھلے نصاب میں ہو، مینیوئل کی شکل میں ہو یا آئین کی جلد میں بندھا ہو۔ اس کا عملی زندگی اور حسنِ انتظام سے کیا لینا دینا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp