پاکستان میں سیاست کرنا اور اس سے وابستہ رہنا ہمیشہ سے ایک مشکل عمل رہا ہے۔ گو کہ پاکستانی سیاست میں خواتین کا کردار محدود رہا ہے کیونکہ سماجی روایات نے خواتین کو معاشرے کے کئی حصوں میں نادیدہ بنایا ہوا ہے۔البتہ حالیہ سالوں میں خواتین کی سیاست میں شمولیت کی اہمیت بڑھی ہے اور سیاست میں صنفی مساوات کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ہمارا ملک اس حوالے سے خوش قسمت رہا ہے کہ خواتین سیاستدانوں نے نامساعد حالات کے باوجود جس طرح خود کو منوایا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ خواتین سیاستدان جمہوریت کی بقا کے لیے ہر آمرِ وقت کے سامنے آہنی دیوار بن کے کھڑی رہیں ہیں۔
سیاست میں خواتین کی کردار کشی آج کی بات نہیں اس کی بنیاد پاکستان میں شروع سے ہی رکھ دی گئی تھی تاکہ خواتین اپنے کردار کشی سے خوفزدہ ہو کر نا صرف سیاسی میدان سے دور رہیں بلکہ کسی بھی شعبے میں اپنی کارکردگی دکھا سکیں۔
مادرِ ملت ’فاطمہ جناح‘ نے 1965ء میں اس وقت کے آمر جنرل ایوب خان کے مقابل صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ جمہوریت کے تسلسل کے لیے تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح نہیں چاہتی تھیں کہ سیاست میں فوج کا کوئی عمل دخل ہو۔ انہیں اس جسارت کی سزا کردار کُشی کی صورت میں ملی اور انہیں ’مغربی ایجنٹ‘ پکارا گیا۔
ایوب خان کی دھاندلی کے باوجود محترمہ کراچی اور ڈھاکہ سے بڑی تعداد میں ووٹ لے کر جیتیں۔ان کی موت کے حوالے سے بھی شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ وہ طبعی موت کا شکار نہیں ہوئیں۔یہیں سے خواتین سیاستدانوں کو اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے دیوار سے لگانے کا عمل شروع ہوا۔آمریت کی نرسری میں تیار ہونے والا یہ مکروہ عمل آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔
نسیم ولی خان اپنے شوہر کے شانہ بہ شانہ ملک کو درپیش آمریت کے خلاف لڑیں۔ان کو ’آئرن لیڈی‘ بلاجواز نہیں کہا جاتا ہے۔جس دور میں بیگم نسیم ولی اپنے روشن خیالات کے ساتھ میدانِ سیاست آئیں اس وقت پختون خواتین ایسا قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔انھوں نے اپنے شوہر ولی خان کے جیل جانے کے بعد پارٹی کی کمان سنبھالی اور سیاست میں اپنا سکّہ بھی منوایا۔
بیگم نصرت بھٹو کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ضیاءالحق کی بدترین آمریت میں ان کی قربانیوں کی داستان بہت طویل ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد 1977ء میں پارٹی کی کمان ہاتھ میں لی۔آمریت کے خلاف مظاہروں کی پاداش میں ان پر سرِعام لاٹھیاں برسائی گئیں، جس میں وہ شدید زخمی بھی ہوئیں۔انہیں بھی ناصرف ’غدار‘ اور ’بد چلن عورت‘ تک کہا گیا، لیکن وہ کبھی آمر کو للکارنے سے پیچھے نہیں ہٹیں۔اپنے چاروں بچوں سے دوری برداشت کی۔نصرت بھٹو اس ملک میں جمہوریت کی خاطر سوائے ایک بیٹی صنم بھٹو کے تمام خاندان کو قربان کرنے والی واحد سیاستدان خاتون کا اعزاز رکھتی ہیں۔
بے نظیر واقعی اپنے نام کی عکاس تھیں۔ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی جانشین ہونے کا عملی ثبوت دیا۔ضیاءالحق نے بینظیر کی زندگی لمبے عرصے تک تنگ کیے رکھی۔ان کو جبری جلا وطنی کاٹنا پڑی۔بینظیر نے اپنی تعلیم آکسفورڈ سے مکمل کی۔ سیاست میں قدم رکھنے پر انھیں عوام کی جانب سے بھرپور پزیرائی ملی۔1988ء میں بینظیر بھٹو نے پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن کر تاریخ رقم کی۔البتہ انہیں ملکی سیاست میں داخل ہونے اور کامیابی حاصل کرنے میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے یہی بات ہمارے کرتا دھرتا اداروں کے لئے پریشانی کا باعث تھی۔
بینظیر ان کو مختلف کیسوں میں پھنسایا گیا۔ان کی فوٹو شاپ غیر اخلاقی تصاویر بنائی اور پھیلائی گئیں۔بینظیر دو بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں لیکن ان کی حکومت کو بھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔
پرویز مشرف کی آمریت میں بی بی کو پھر جلاوطن ہونا پڑا۔ میثاق جمہوریت کے نتیجے میں وطن واپسی پر خودکش دھماکے میں ان کے استقبال کے لیے آئے ہوئے سینکڑوں کارکنوں کی جان گئی۔ لیکن دوسرے خود کش دھماکے میں بینظیر جاںبر نہ ہو سکیں۔آج تک ان کے قاتلوں کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔
کلثوم نواز بے شک سیاست میں اس طرح سرگرم نہیں تھیں لیکن جب نواز شریف کو آمر پرویز مشرف نے حکومت سے بے دخل کیا تو کلثوم نواز نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔بیماری کے باوجود انہوں نے اپنے خاندان کو بکھرنے نہ دیا۔ ان کے خلاف بھی ہماری اشرافیہ نے الزام تراشی اور کردار کشی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ان کے انتقال پر بھی گھٹیا قسم کا پروپیگنڈا کیا گیا۔
ان کی بیٹی مریم نواز نے بیٹی کا حق ادا کرتے ہوئے سیاسی میدان میں اپنے والد کے بیانیے ’ووٹ کو عزت دو کو‘ ایک نئی تحریک میں بدل دیا۔ان کی پُر جوش تقاریر نے عوام میں ان کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیے۔
مریم نواز کے ساتھ بھی وہی سارے ہتھکنڈے استمعال کیے گئے جو دیگر دوسری خواتین سیاستدانوں کے حصے میں آچکے تھے۔ مریم نواز نے جیل بھی کاٹی اور کیسز کا بھی بہادری سے سامنا کیا۔
سیاست میں خواتین ورکروں کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان کے بنا ہماری سیاسی تاریخ نامکمل ہی رہے گی۔ مریم اورنگزیب، شیریں رحمان، بشری گوہر، شازیہ مری، سسی پلیجو یہ ساری وہ خواتین ہیں جنہوں نے ہمیشہ آمریت کے خلاف اپنے رہنماؤں کا ساتھ دیا۔
سیاست میں خواتین کی کردار کشی آج کی بات نہیں اس کی بنیاد پاکستان میں شروع سے ہی رکھ دی گئی تھی تاکہ خواتین اپنی کردار کشی اور الزام تراشی سے خوفزدہ ہوکر ناصرف سیاسی میدان سے دُور رہیں بلکہ کسی بھی شعبے میں اپنی کارکردگی نہ دکھا سکیں۔
پاکستان کی خواتین کو سیاست میں حصہ لینے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اب بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ سیاسی جماعتوں کے اندر اور باہر نسلی تفرقہ، ہراساںی اور تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ پارلیمان اور دوسری عوامی تنظیموں میں خواتین کی نمائندگی کی کمی ایک بڑی حقیقت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے آبائی نظام کی بنا پر بھی خواتین کی سیاست میں شرکت محدود ہے کیونکہ پارٹیاں عموماً مرد امیدواروں کو ترجیح دیتی ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ عورت دشمن معاشرہ ہے۔ آج بھی ہمارے یہاں ہر عمر کی عورت اس معاشرے میں مردوں کے بہیمانہ اور ظالمانہ تشدد کا شکار ہے۔
ہماری اکثریت ایسے خاندانوں پر مشتمل ہے جو اپنی بچیوں کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کو تعلیم کے مواقع فراہم نہیں کرتے۔ کم عمری میں جبری شادیوں کا رواج آج بھی برقرار ہے۔
عورتوں کو ہراساں کرنے، بچیوں کے ساتھ زیادتیوں، ریپ کے واقعات میں پاکستان سرفہرست ہے۔ غیرت کے نام پر قتل معمول کا قصہ ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہر تان عورت پر ہی ٹوٹتی ہے۔ مرد ایسے ہتھکنڈے تب ہی استمعال کرتے ہیں جب وہ عورت کی صلاحیتوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
اس کے باوجود بھی اگر خواتین پڑھ لکھ کر سیاست اور دیگر شعبوں میں اپنی شناخت بنا رہی ہیں تو بلاشبہ یہ حوصلہ افزا اور قابلِ تحسین بات ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو مکمل طور پر سیاست میں شریک ہونے اور کامیاب ہونے کے برابر مواقع ملنے چاہیے تاکہ عورتوں کی حکومت میں نمائندگی زیادہ ہو کیونکہ خواتین سیاستدان ہی اس ملک میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کو قانونی ترمیم کے ذریعے ہی ختم کرسکتی ہیں اور انہیں حقوق دلا سکتی ہیں۔