یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں جھوٹ اور سچ میں کوئی تمیز نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس میں جھوٹ زیادہ بکتا ہے، یعنی جتنا کوئی سنسنی پھیلائے گا اُتنا اسے زیادہ دیکھا اور پڑھا جائے گا اور جتنا کوئی دوسروں کی پگڑیاں اچھالے گا اور کرپشن کے بے بنیاد الزام لگائے گا اتنا وہ ڈالرکمائے گا۔
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے حوالے سے فیک نیوز کا مسئلہ سب کے لیے ایسا دردِ سر بن گیا ہے جسے کنٹرول کرنے کا کسی کے پاس ابھی تک کوئی توڑ موجود نہیں۔ صرف ہم نہیں بلکہ ساری دنیا اس سے پریشان ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسے بے قابو جن کی صورت اختیار کرچکا ہے جسے نہ تو واپس بوتل میں بند کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا تو اتنا طاقتور بن چکا ہے کہ اس نے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اس کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ جو کچھ اخبارات اور ٹی وی چینلز لوگوں تک سینسرشپ یا طاقتور طبقوں کے ڈر، خوف یا دباؤ کے باعث نہیں پہنچا سکتے وہ سوشل میڈیا میں چند گھنٹوں میں وائرل ہوجاتا ہے۔ جج ہوں یا جرنیل یا کوئی بھی طاقتور طبقہ، سوشل میڈیا کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔
ان حالات میں سنجیدہ اور ذمہ دار افراد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کو قابلِ اعتبار بنانے اور اس میں موجود جھوٹ اور غلاظت کو الگ کرنے کے لیے بہتر پلیٹ فارم متعارف کروائے جائیں۔ مجھے امید ہے کہ We نیوز اسی سمت میں ایک اہم کاوش ہوگی۔
We نیوز کی ٹیم کے چند ایک افراد کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جس کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ وہ اچھی اور معیاری خبریں، تبصرے اور دوسری معلومات عوام تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں گے۔
میرا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہے، ٹی وی چینلز سے اس حد تک تعلق ہے کہ کبھی کبھار میں ٹی وی ٹاک شوز میں بھی چلا جاتا ہوں (جس میں کچھ عرصے سے وقفہ کیا ہوا ہے)، اور سوشل میڈیا سے ٹوئٹر اور اپنے وی لاگ کے ذریعے ناطہ ہے۔ ایک بات جو ذرائع ابلاغ کے ہر قسم کے لیے سب سے اہم ہے وہ خبر ہے۔ اگر آپ کے پاس ٹھوس خبر ہے اور آپ اسے بریک کر رہے ہیں تو چاہے اخبار ہو، ٹی وی چینل یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم وہی بازی لے جائے گا جو خبر دے گا۔
We نیوز سے توقع ہے کہ وہ بڑی بڑی خبروں کو بریک کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ گڈ لک We نیوز۔