پاک ایران سفارتی تعلقات پہلی بار منقطع، کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

بدھ 17 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ شب بلوچستان کے شہر پنجگور پر ایرانی میزائل حملے کے نتیجے میں پاکستان نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور پاک ایران سفارتی تعلقات کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے۔

پاکستان نے ایران کی جانب سے بلا اشتعال فوجی کارروائی پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے پاکستان میں ایران کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا، تہران میں پاکستانی سفیر نے بھی پاکستانی حکومت کی جانب سے احتجاج کیا اور پھر پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر واپس بلاتے ہوئے ایرانی سفیر کو پاکستان سے واپس بھیج دیا، اس صورت حال پر دفاعی اور سفارتی امور کے ماہرین کی رائے جاننے کے لیے ہم نے ان سے بات کی ہے۔

ایران کے حملے سے تاریخی تعلقات کو دھچکا لگا، سید محمد علی

ماہر امور قومی سلامتی سید محمد علی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اس حملے سے پاکستان اور ایران کے مابین اعتماد، خیر سگالی اور تاریخی تعلقات کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ایران کی بلااشتعال فوجی کارروائی بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور خصوصاً پاک ایران خیر سگالی تعلقات کی تاریخی خلاف ورزی ہے۔

سید محمد علی نے کہاکہ حملے سے ایک روز قبل ہی تو پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ایرانی وزیر خارجہ عامر عبدالہیان کے درمیان سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ملاقات ہوئی تھی۔

’ایران نے اسی طرح کے حملے شام اور عراق پر کیے ہیں لیکن پاکستان نے ایران کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان شام یا عراق نہیں‘۔

پاکستان کے پاس اس وقت تمام آپشنز کھلے ہیں

سید محمد علی نے کہاکہ پاکستان کے پاس اس وقت تمام آپشنز کھلے ہیں۔ پاکستان سفارتی، سیاسی، قانونی اور دفاعی اقدامات کر سکتا ہے۔ سفارتی تعلقات منقطع کر کے پاکستان نے پہلا آپشن استعمال کیا ہے اور اسی طرح سے دیگر آپشنز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس معاملے میں سیاسی سطح پر بات کی جا سکتی ہے اور اگر قانونی معاملہ آیا تو پاکستان اس نقطے پر بات کر سکتا ہے کہ اس کی خودمختاری اور سالمیت کی بلا اشتعال صریح خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان ایران کے خلاف دفاعی سطح پر بھی اقدامات کر سکتا ہے۔

ان حملوں کے تناظر کے بارے میں بات کرتے ہوئے سید محمد علی نے کہاکہ اس وقت مشرق وسطیٰ کی جو صورتحال ہے، اس تناظر میں ایران کی نظریاتی قیادت پر داخلی دباؤ بہت بڑھ گیا ہے جس کو کم کرنے کے لیے ایران نے پاکستان، عراق اور شام پر بیلسٹک میزائلوں سے حملے کیے حالانکہ شام کے ساتھ تو ایران کے قریبی تعلقات ہیں۔

ایران پر داخلی دباؤ ان تنظیموں کی جانب سے ہے جو یہ توقع رکھتی ہیں کہ ایران خطے میں امریکا اور اسرائیل کے خلاف اقدامات کرے گا۔ پاکستان کے ایران کے ساتھ دیرینہ سفارتی، سیاسی اور برادرانہ تعلقات رہے ہیں اور اس حملے سے انہیں شدید زک پہنچی ہے۔ پاکستان جہاں ایران کے ساتھ اپنے خیر سگالی کے مراسم کی قدر کرتا ہے وہیں قومی سلامتی اور قومی دفاع کے تقاضوں سے غافل نہیں ہے اور پاکستان جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے۔

ایران پر واضح ہو جانا چاہیے کہ وہ پاکستان میں براہِ راست کارروائی کا حق نہیں رکھتا، علی سرور نقوی

سنٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق سفیر علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ اقدام پاک ایران باہمی تعلقات کے لیے اچھا نہیں۔ پاکستان نے موقف اختیار کیا ہے کہ ایران نے حملہ کر کے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا جو احترام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں کیا۔ سفارتی تعلقات کا انقطاع اسی بات کا احتجاج ہے جس سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر کافی منفی اثر پڑا ہے۔ ایران پر اب یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ وہ براہِ راست پاکستان کے اندر فوجی کارروائی نہیں کر سکتا اور اس کا سخت ردعمل آئے گا۔

علی سرور نقوی نے کہاکہ بھارت کے ساتھ تو پاکستان کے تعلقات میں اکثر یہ چیزیں آتی رہتی ہیں اور اس وقت بھی دونوں ملکوں میں دونوں ملکوں کے سفرا موجود نہیں لیکن پاک ایران تعلقات کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ جس کا مقصد ایران کو بتانا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے بغیر اس طرح کے حملے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ حملہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ ادوار میں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ بھی اس طرح کی سخت پوزیشن لی ہے کیونکہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ لیکن افغانستان اور بھارت کے علاوہ حالیہ برسوں میں پاکستان نے کسی اور ملک کے خلاف اس طرح سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اقدام نہیں اٹھایا۔

مسئلے کے حل کے بارے میں بات کرتے ہوئے علی سرور نقوی نے کہا کہ ان کا حل صرف دوطرفہ مذاکرات ہیں۔

ایران نے معاملے کو مِس ہینڈل کیا ہے، نغمانہ ہاشمی

سابق سفیر نغمانہ ہاشمی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ایران ہمارا برادر اور پڑوسی ملک ہے لیکن ایران نے معاملے کو مس ہینڈل کیا ہے۔ اگر اس کو دہشت گردی سے متعلق شکایات تھیں تو اسے پاکستان سے سفارتی ذرائع کے ذریعے بات کرنا چاہیے تھی۔

انہوں نے کہاکہ ایران نے پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔ دہشت گردی اس خطے کا مشترکہ مسئلہ ہے اور تمام ممالک کو مل بیٹھ کر اس کا حل کرنا چاہیے۔ لیکن اس طرح کی یکطرفہ کارروائیاں نہیں کرنی چاہییں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp