نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے لیے امریکی دباؤ کو یکسر مسترد کردیا

جمعہ 19 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکہ کو باور کرادیا ہے کہ وہ غزہ میں تنازع ختم ہونے کے بعد فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتے ہیں۔

ایک نیوز کانفرنس میں وزیر اعظم نیتن یاہو نے غزہ میں ’مکمل فتح تک‘ جارحیت جاری رکھنے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ حماس کی تباہی اور باقی اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی میں ’مزید کئی مہینے‘ لگ سکتے ہیں۔

حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں تقریباً 25,000 فلسطینیوں کے مارے جانے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقے کی 85 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے، اسرائیل پر شدید دباؤ ہے کہ وہ اپنی جارحیت کو لگام دیتے ہوئے جنگ کے پائیدار خاتمے کے لیے بامعنی مذاکرات میں شامل ہو۔

اسرائیل کے اتحادیوں، بشمول امریکہ اور اس کے بہت سے دشمنوں نے – طویل عرصے سے غیر فعال ’دو ریاستی حل‘ کے احیاء پر زور دیا ہے، جس میں مستقبل کی فلسطینی ریاست ایک اسرائیلی ریاست کے ہمراہ اپنا وجود رکھے گی۔

بہت سے حلقوں میں امید یہ ہے کہ موجودہ بحران متحارب فریقوں کو تشدد کے لامتناہی چکروں کے واحد قابل عمل متبادل کے طور پر واپس سفارت کاری پر مجبور کر سکتا ہے لیکن وزیراعظم نیتن یاہو کے تبصروں سے ان کا ارادہ بالکل برعکس نظر آتا ہے۔

جمعرات کی نیوز کانفرنس کے دوران، وزیر اعظم نیتن یاہو انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو دریائے اردن کے مغرب کی تمام اراضی پر سیکیورٹی کنٹرول ہونا چاہیے، جس میں مستقبل کی کسی بھی ممکنہ فلسطینی ریاست کا علاقہ بھی شامل ہے۔

’یہ ایک ضروری شرط ہے، اور یہ فلسطینی خودمختاری کے خیال سے متصادم ہے، کیا کیا جائے؟ میں یہ سچ اپنے امریکی دوستوں کو بتاتا ہوں، اور میں نے اسرائیل پر ایسی حقیقت مسلط کرنے کی کوشش کو بھی روکا جس سے ملکی سلامتی کو نقصان پہنچے۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے سیاسی کیریئر کا بیشتر حصہ فلسطینی ریاست کی مخالفت کرتے ہوئے صرف کیا ہے، ابھی پچھلے مہینے ہی انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے پر اپنے کردار پر فخر کا اظہار کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے تازہ ترین ریمارکس میں کوئی تعجب کا کوئی خاص پہلو نہیں ہے۔

لیکن نیتن یاہو کی جانب سے واشنگٹن کے سفارتی دباؤ کی عوامی سطح پر تردید اور موجودہ فوجی روش برقرار رکھنے کا عزم اسرائیل کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ وسیع ہوتی خلیج کو واضح کرتا نظر آتا ہے۔

7 اکتوبر کے حملوں کے بعد، جنہیں اسرائیل کی تاریخ کے بدترین حملوں میں شمار کیا گیا ہے، امریکا نے اسرائیلی دفاع کے حق کی حمایت کی ہے، 7 اکتوبر کو حماس کے مسلح جنگجوؤں نے تقریباً 1,300 اسرائیلیوں کو ہلاک اور تقریباً 240 کو یرغمال بنالیا تھا۔

لیکن غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے اور وہاں خوف و ہراس کے بڑھتے ہوئے مناظر کے پیش نظر مغربی حکومتوں نے اسرائیل سے تحمل کا مطالبہ کیا ہے، وائٹ ہاؤس نے بارہا اسرائیل کی فوجی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔

امریکا نے بلینکٹ فضائی حملوں کے بجائے زیادہ درست رہنمائی والے ہتھیاروں کے استعمال پر زور دینے سمیت زمینی حملے کی حوصلہ شکنی کی ہے اور غزہ پر جارحیت کے بعد تنازعہ میں فلسطینی اتھارٹی کے کردار کے ساتھ 2 ریاستی حل کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

لیکن واشنگٹن کے مشورے پر اسرائیل نے کبھی کان نہیں دھرا یا پھر اکثر عوامی طور پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے دوروں کے دوران اسے صریحاً مسترد کر دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کے لیے واضح حمایت پر کچھ امریکی حلقوں میں مایوسی بڑھ گئی ہے۔

اس کے مشرق وسطیٰ کے اتحادی کے لیے امریکی امداد پر شرائط عائد کرنے کے لیے سخت مطالبات کیے گئے ہیں، وزیر اعظم نیتن یاہو کے تازہ ترین تبصروں کا جواب دیتے ہوئے، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت دو ریاستی حل کے لیے کام کرنا بند نہیں کرے گی، اور مزید کہا کہ ’غزہ پر دوبارہ قبضہ نہیں کیا جائے گا۔‘

اسرائیل کے وزیر اعظم کے اس نوعیت کے تبصرے ان کی کم ہوتی ہوئی حمایت اور انتہائی دائیں بازو کے وزراء کو تو خوش کریں گے جو ان کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں، لیکن وہ اندرون اور بیرون ملک ان لوگوں کو مایوس کر دیں گے جو اس جنگ کی انسانی قیمت سے خوفزدہ ہو رہے ہیں۔

’حالیہ انتخابات سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر اسرائیلی چاہتے ہیں کہ وہ حماس کو تباہ کرنے کے ممکنہ طور پر ناممکن مقصد کے مقابلے میں باقی یرغمالیوں کو گھر واپس لانے کو ترجیح دے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp